
غالب کی ایک نعتیہ غزل
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ غالب نے اپنے اردو کلام کو مجموعۂ بے رنگ کہا اور فارسی کلام کو نقش ہائے رنگ رنگ کا مرقع قرار دیا اور آرزو کی کہ فارسی کلام ہی کو پڑھا جائے اور اردو کلام کو نظرانداز کردیا جائے۔ مگر دنیا نے ان کی بے رنگ شاعری میں بھی اتنے رنگ دیکھے کہ آج تک وہ اس کے سحر سے نکل نہیں سکی اور غالب کو شہرتِ دوام اس کے اردو کلام ہی نے عطا کی۔ فارسی کلام بوجوہ کم پڑھا گیا اور کم سمجھا گیا، حالاںکہ بطورِ شاعر غالب کی حقیقی عظمتیں وہیں جلوہ گر ہیں۔ علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں ’’مرزا غالب۔ فارسی شاعر۔ غالباً ہمارا واحد دوامی سرمایہ ہے، اس کا شمار ان شاعروں میں ہے جو اپنے تخیل اور ادراک میں محدود عقیدوں اور سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں۔ دنیا ابھی اسے پہچانے گی۔‘‘ ’’بانگِ درا‘‘ میں اقبالؔ نے غالبؔ کو یوں خراجِ تحسین پیش کیا ہے:
نطق کو سوناز ہیں تیرے لب اعجاز پر
محو حیرت ہے ثریا رفعت پرواز پر
شاہد مضموں تصدق ہے ترے انداز پر
خندہ زن ہے غنچۂ دلّی، گل شیراز پر
آہ تو اُجڑی ہوئی دلّی میں آرامیدہ ہے
گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
ڈاکٹر سیّد محمد عبداللہ کے الفاظ میں، ’’غالب کے فارسی کلام میں حسن و عشق، موت و حیات، کمال و پستی، امید و بیم، قبض و بسط غرض زندگی کے بارے میں بے شمار حقائق ملتے ہیں۔ یہ ان کی اردو شاعری میں بھی ہیں مگر فارسی شاعری کا دامن وسیع تر اور معمور تر ہے۔‘‘ اور یہ شرف بھی غالب کے فارسی کلام کو ملا کہ اس میں اس کی ایک خوب صورت نعتیہ غزل محفوظ ہے۔
غالب باقاعدہ نعت گو شاعر نہیں ہے، وہ جس دور سے تعلق رکھتا ہے اس دور میں نعت رسماً کہی جاتی تھی اور تبرکاً مجموعۂ کلام میں شامل کی جاتی تھی۔ مگر یہ فارسی نعت کلام کے آغاز میں نہیں بلکہ ترتیب کے مطابق ردیف ت میں ملتی ہے اور یہ بات بھی نہیں کہ غزل کہتے کہتے کہیں اتفاق سے نعت کا شعر ہوگیا ہو جیساکہ غالب کے اردو کلام میں بعض مقامات پر چند نعتیہ شعر ملتے ہیں بلکہ حسنِ اتفاق سے یہ ایک خالص نعت ہے اور اس کی ردیف ’’محمدؐ است‘‘ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ رسماً نہیں بلکہ ارادتاً کہی گئی ہے اور اس کے آخری شعر کا قبولِ عام، نیت کے اس حسن کا خوب صورت ثمر ہے۔ غالبؔ، نعت کے یہ نو شعر نہ بھی کہتے تو یہی ایک شعر، ایک بھرپور نعت کا کام دے سکتا تھا اور خود نعت گو کے لیے توشۂ آخرت بھی بن سکتا تھا کیوںکہ اس دربارِ دُربار میں کیفیت دیکھتی جاتی ہے، کمیت نہیں، وہاں دل کی دھڑکنیں، روح کی لرزشیں اور آنکھ کے آنسو بار پاتے ہیں۔ یہاں تک کہ احساس، لفظ بننے سے پہلے ہی موتیوں میں تل جاتا ہے:
جو دل سے اُٹھی اور گئی عرش بریں تک
جو لب پہ نہ آئی وہ دعا، یاد رہے گی
پوری نعت یوں ہے:
حق جلوہ گر ز طرز بیانِ محمدؐ است
آرے کلام حق بہ زبان محمدؐ است
آئینہ دار پرتو مہر است ماہتاب
شان حق آشکار، ز شان محمدؐ است
تیر قضا ہر آئینہ در ترکش حق است
اما کشاد آں زِ کمان محمدؐ است
دانی اگر بہ معنیٔ لولاک وا رسی
خود ہر چہ از حق است، ازان محمدؐ است
ہر کس قسم بد انچہ عزیز است می خورد
سو گند کردگار بجان محمدؐ است
واعظ، حدیث سایۂ طوبیٰ فرو گزار
کاینجا سخن ز سرو روان محمدؐ است
بنگر دو نیمہ گشتن ماہ تمام را
کاں نیمہ جنبشے ز بنان محمدؐ است
ور خود ز نفس مہر نبوت سخن رود
آں نیز نامور ز نشان محمدؐ است
غالب ثنائے خواجہؐ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است
پہلے شعر میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ حضور کی زبان صدقِ اظہار سے نکلنے والی ہر بات حق ہے کہ وہ خدائے برحق کی طرف سے ہے۔ اس میں ایسی بے لاگ ہدایت ہے جو محض خلوص و محبت کی آئینہ دار ہے اور اس میں کسی نوع کی کوئی ذاتی غرض شامل نہیں ہے۔ نطق محمد فی الواقع پروردۂ الہام ہے کہ اسے سن کر عرب کے فصیحانِ تمرد خو کے سر بھی جھک گئے تھے اور دل بھی۔ آپؐ کا ایک ایک بول اپنے اندر صدہا صداقتوں کے صدف لیے ہوئے تھا اور آپؐ کا ہر قول بے خزاں بہاروں کا امین تھا:
ہر بات اک صحیفہ تھی اُمی رسولؐ کی
الفاظ تھے خدا کے، زباں تھی رسولؐ کی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
والنجم اذا ھویٰ o ما ضل صاحبکم وما غویٰ o وما ینطق عن الھویٰ o ان ھو الا وحی یوحٰیo
اس آیت میں بات کی صداقت کو پُرزور بنانے کے لیے ستارے کی قسم کھائی گئی ہے کہ ستارہ رات کی تاریکیوں میں بھولے بھٹکے مسافروں کو روشنی بھی دیتا ہے، راستہ بھی دکھاتا ہے، رُخ بھی سمجھاتا ہے اور وقت کا پتا بھی دیتا ہے۔ یہی ستارہ اہلِ فارس اور اہلِ عرب کے ہاں افسانوی موضوع بھی رہا ہے۔ آیاتِ قرآنی کے علاوہ حضورa کے لبوں سے ادا ہونے والا ہر کلمہ سچا ہے کہ وہ زبان کھلتی ہی صداقتوں کے لیے تھی:
دہر بھر کی ہر صداقت کو پرکھ کر دیکھ لو
جو حدیثِ مصطفیؐ میں ہے وہ سچائی کہاں
’’صداقت بیان کرنے والے کے ساتھ اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے۔ کوئی جھوٹا آدمی سچ بولنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ سچ خطرے میں ہے۔ سچ وہی ہے جو سچے کی زبان سے نکلے، صادق کو ماننے والا صدیق بن جاتا ہے۔ صادق کی ہر بات صداقت ہے، صادق کے فرمان میں اپنی صداقتیں اور وضاحتیں شامل کرنے سے سچ میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں کہ صادق الہام بولتا ہے اور ہم ابہام بولتے ہیں۔‘‘
انھی کو مرکز حق، حاکم برحق کہا، حق نے
وہی خلق و خدا کے درمیاں ہیں برزخِ کبریٰ
آپ کی ہر بات مطالبِ قرآنی کی علمی تفسیر اور آپ کا ہر فعل احکامِ ربانی کی عملی تصویر ہے۔ فرق اتنا ہے کہ آیاتِ قرآنی کی تلاوت کی جاتی ہے مگر ان کی اس نوع سے تلاوت نہیں کی جاتی۔ مگر اہلِ دل انھیں بھی اصولِ ہدایت سمجھتے اور اہلِ نظر عقیدت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ قرآن و حدیث لازم و ملزوم ہیں اور ان میں وہی تعلق ہے جو علم اور تعلیم، نظریہ اور عمل، لفظ اور مفہوم، متن اور وضاحت، کتاب اور معلم میں ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات کسی مشاہدے، تجربے اور نتیجے کی پابند نہیں ہوتی، وہ مقام تکمیل سے بولتا ہے اور اس کی ’’ہر بات، باتوں کی پیغمبر ہوتی ہے۔‘‘
ہر قول ترا حرفِ صداقت کا ہے ضامن
ہر فعل ترا حسن ارادت کا امیں ہے
حضرت جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق سورۃ النجم میں جس ستارے کی قسم کھائی گئی ہے اس سے مراد خود رسول اللہ ہیں، قسم ہے اس تابندہ ستارے کی جو نیچے اُترا، مراد شبِ معراج، آپؐ کا رفعتوں سے زمین کی طرف نزول فرمانا ہے۔ قرآن پاک کے مطالب و کلمات سب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں جب کہ حدیث کے مفہوم و معانی اللہ کی طرف سے ہیں اور الفاظ نبیِ کریم کے اپنے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول پاک کی ہر بات لکھ لیا کرتے تھے۔ بعض نے انھیں منع کیا کہ کبھی آپؐ غصے میں بھی ہوسکتے ہیں، ہر بات لکھنے کے قابل نہیں ہوتی، انھوںنے کتابت بند کردی اور اس کا ذکر رسول اللہ سے کیا تو آپؐ نے فرمایا، ’’اے عبداللہ! تم میری ہر بات کو لکھ لیا کرو، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ میری زبان سے کبھی کوئی بات حق کے سوا نہیں نکلتی۔‘‘ بقولِ سیمابؔ اکبرآبادی:
وہ بے اہمال اسرار حقیقت کھولنے والا!
خدا کے لفظ، انسانی زباں میں بولنے والا
غالب کے اس شعر کے ایک مصرع میں صرف قرآن پاک کی بات ہے کہ وہ زبان محمدسے سنایا جا رہا ہے۔ دوسرے مصرع میں طرزِبیان محمد کا ذکر ہے کہ تلاوت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تزکیہ کا حق بھی ادا کیا جارہا ہے۔ قرآن کی توضیح و تشریح کا حق بھی اللہ تعالیٰ نے مخبر صادق ہی کو عطا کیا ہے۔ نصِ قرآنی ہے کہ ’’ہم نے آپ پر قرآن اُتارا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اسے خوب واضح کریں‘‘۔۔۔ گویا منشائے خداوندی اور مطالب قرآنی کو حضورa ہی سمجھا سکتے تھے کہ وہ قرآن کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ مولانا بدر عالم میرٹھیؒ نے اس بات کو کلامِ غالب ہی کی مثال سے یوں واضح کیا ہے۔
’’دیوانِ غالب‘‘ اردو ہی کا ایک دیوان ہے۔ اس کی ادبیت بھی ضرب المثل ہے۔ اس کا مؤلف بھی شعرا کی سب سے پہلی صف میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن جب غالب دنیا سے رخصت ہوگئے اور ان کے کلام کی مراد براہِ راست معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہا تو اب ان کا دیوان لوگوں کی طبع آزمائی کے لیے تختۂ مشق بن گیا۔ صوفی مزاج نے چن چن کر ان کے کلام میں تصوف بھر دیا۔ رند مشرب نے شراب کا لفظ دیکھ کر مستی و کیف کے سارے نقشے کھینچ دیے۔ فلسفی نے اپنی تمام موشگافیاں ختم کر ڈالیں لیکن غالب کی صحیح مراد کے موافق شاید کوئی شرح بھی نہ لکھی گئی۔ ان سے اگر پوچھا جائے تو وہ ان کے متعلق شاید یہی جواب دیں:
ہر کسے از ظن خود شد یار من
و ز درون من نہ جست اسرار من
جب ایک انسان کی تالیف کا حال یہ ہے کہ اب انصاف کیجیے کہ اگر قرآن بھی اسی طرح لوگوں کی طبع آزمائی کا میدان بنا دیا جاتا تو اس کا حشر کیا ہوتا۔‘‘
گویا اگر جبریلؑ کی معرفت صرف قرآن پاک اُتار دیا جاتا اور رسول اللہ نہ ہوتے تو ہر شخص اپنی بساط فہم کے مطابق مطالب سمجھتا اور سمجھاتا اور یوں ’’کثرتِ تعبیر‘‘ سے خواب پریشاں ہوکے رہ جاتا اور حقیقت نہ بن سکتا۔ بقولِ شاعر:
شرح کلام پاک ہے ان کا ہر ایک لفظ
فرمانِ حق ہے اصل میں فرمانِ مصطفیؐ
غالب کے زیرِتبصرہ شعر میں حق سے مراد سچ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بھی۔ سچائیوں کی تہہ تک بھی آپ ہی نے پہنچایا اور عرفانِ حق بھی آپؐ ہی کی معرفت نصیب ہوا۔ حضور کی معراج لوح و قلم تک پہنچنا تھا اور ہماری معراج حضور کے نقوش پا تک پہنچنا ہے اور نقوش پا کی یہ چاندنی نصیب ہوجائے تو صراطِ مستقیم مل جاتی ہے۔کیوںکہ انسان صادق تک پہنچ جائے توجملہ صداقتیںاس کا احاطہ کرلیتی ہیں۔قرآن مجید تو بہر نوع سچائیوں، بصیرتوں اور عبرتوں سے لبریز ایک الوہی بیان ہے۔ مگر حضور نے جس دل آویز اسلوب، جس دل گداز انداز اور جس دل نشیں ادا کے ساتھ اسے سمجھایا اور دنیا تک پہنچایا وہ ادا صداقت آفرین ہونے کے ساتھ ساتھ جمالیاتی دل پزیری کی جملہ کیفیات کی حامل بھی ہے۔ گویا آپؐ ہر اعتبار سے حق گو ہیں۔ خواہ وہ آیاتِ قرآنی ہوں یا ان کی ترجمانی۔ آیاتِ قرانی اعجاز اور یجاز، جلال و جمال اور تاثر و کمال کے لحاظ سے اگر سامعین کے دلوں میں اس انداز سے اُتریں کہ وہ بے ساختہ پکار اٹھے کہ اس کلام کی زمین تو آسمان سے آئی معلوم ہوتی ہے تو دوسری طرف احادیثِ نبوی فصاحت و بلاغت اور عظمت و موعظت کے اعتبار سے بھی بے مثال سمجھی گئیں کہ ترجمانِ حق، افصح العرب تھے اور انھیں جوامع الکلم عطا کیے گئے تھے۔ حضور لفظ ابداع فرماتے تھے۔ آپ کے مفرد الفاظ جامع و مانع، آپ کے جملے حسنِ ادب کی کہکشاں اور آپ کی تشبیہات و استعارات ایسے بے مثال ہیں کہ انھیں سن کر ذوقِ سلیم جھومتا ہے۔ آپ کی زبانِ بلاغت نظام سے عربی ایسی ناپیدا کنار زبان نے وسعت پائی اور بال و پر حاصل کیے، کم سے کم الفاظ میں مفہوم و مطالب کا سمندر موجیں مارتا محسوس ہوتا ہے اور خود حضور کا یہ فرمان ہے کہ ’’میری زبان اسمٰعیلؑ کی زبان ہے۔ اسے جبریلؑ مجھ تک لائے اور ذہن نشین کرا دی‘‘ آپؐ کے کلامِ حق کا کمال یہ ہے کہ وہ مختصر، واضح اور عام فہم ہونے کے ساتھ ساتھ سامعین کی جملہ کیفیات اور احساسات پر حاوی ہے۔ مقصودِ مبہم نہیں اور جامعیت و ہمہ گیریت کا انداز یہ ہے کہ ہر دور کے ہر انسان کی رہنمائی کا حق ادا ہوسکتا ہے۔ لفظ لفظ نگینہ اور بات بات خزینہ ہے اور سہلِ ممتنع کی ایک ایسی صورت ہے کہ اس کے مقابل بات بنائے نہیں بنتی۔ سچ یہ ہے کہ غارِ حرا کے ایک ہی نورانی لمحے نے عرب کے اس عظیم اُمی کو علم کا شہر بنا دیا تھا۔ منصور احمدؔ خالد کہتے ہیں:
تو عرب کا ہے فصیح کون سوائے تیرے
بات پھولوں میں کرے، چاند سخن میں رکھ دے
غالب دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ چاند کی روشنی میں سورج ہی کی چمک کا اثر ہوتا ہے۔ اس لیے محمد کی شان سے حق کی شان آشکار ہے۔ اس شعر میں بھی پہلے شعر کی طرح دعویٰ اور دلیل ہم آہنگ ہیں۔ جس طرح چاند، سورج سے اکتسابِ نور کرتا ہے۔ اسی طرح رسول کی تمام تر شخصی عظمتیں اور پیغمبرانہ رفعتیں اللہ تعالیٰ کی دین ہیں۔ یاد رہے کہ چاند میں سورج کا پرتو ہوتا ہے مگر وہ سورج نہیں ہوتا اور نہ اس کا وجود سورج کی ہمہ گیریت، مرکزیت اور کلیت کو چیلنج کرسکتا ہے بلکہ ایک نوع سے اس میں تشکر و استحسان کا ایک بھرپور احساس ہوتا ہے۔ حسنِ ظاہری سے لے کر حسنِ باطنی تک، لفظی انوار سے لے کر عملی اطوار تک، عبادات کی شائستگی سے لے کر معاملات کی شستگی تک، آپ کا ہر رُخ اگر قابلِ فخر، ہر زاویہ اگر قابلِ تقلید اور ہر پہلو اگر قابلِ قدر ہے تو صرف اس لیے کہ مولا کریم نے آپؐ کو ہر نوع سے خیرِ کثیر سے نوازا ہے۔ ان نوازشوں، سعادتوں اور برکتوں کی کثرت کتنی ہے اور کہاں تک ہے اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ دینے والے نے جو دیا اور جتنا چاہا دیا۔ عقلِ انسانی اس کی کسی طور بھی مقیاس نہیں ہے:
محمدؐ مصطفی آئینۂ انوار یزدانی
محمدؐ مصطفی دیباچۂ آیاتِ قرآنی
وہ عظمت ہے، وہ وسعت ہے محامد میں محاسن میں
احاطہ جس کا کر سکتا نہیں ادراک انسانی
گویا سیرت اور صورت کا ہر حسن ان کے وجودِ اقدس میں منتہائے کمال پر پہنچ کر یوں ہم آہنگ ہوگیا ہے کہ آفتاب ان نگاہوں سے ضیا لیتا اور اس نطق سے غنچے پھول بنتے ہیں، وہ اُٹھتے ہیں تو ستارے فرش بن جاتے ہیں۔ بیٹھتے ہیں تو زمین عرش ہوجاتی ہے، پرواز کرتے ہیں تو کائنات رُک جاتی اور ہر آنکھ کاسۂ نرگس بنی اس حسن کو تکتی ہی رہ جاتی ہے:
اللہ کے جلووں کا آئینہ تری ذات
آئینہ ترا دیدۂ حیران دوعالم
آپ اگر کان سخا اور دست عطا ہیں، اگر حسن کی کائنات اور کائنات کا حسن ہیں، اگر ہر اعتبار سے اکمل، اجمل اور احسن ہیں تو صرف اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں نوازشوں نے انھیں نواز رکھا تھا اور نوازشوں کا یہ سلسلہ پیہم جاری ہے۔ ہر لحظہ فرشتے، رحمتوں کے جلو میں گنبدِ خضریٰ پر اُترتے رہتے ہیں اور یہ رحمتیں، عالمین کو نوازتی رہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ معطی ہے اور حضور قاسم۔ ان کی ذات کمال رحمت باری کی انتہا ہے۔ آپؐ کی بارگاہ ناز عطائوں کا مخزن ہے۔ غالب کے اس شعر میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ جس طرح ایک آئینے میں آفتاب کا عکس جھلکتا ہے اور اس عکس سے آئینہ روشن اور تابناک ہوجاتا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ کے وجود ناز میں ناز آفرین کے جمال کا عکس اپنے کمال پر نظر آتا ہے، بقولِ محسن کاکوروی:
مہر توحید کی ضو، اوج شرف کامہ نو
شمع ایجاد کی لو، بزمِ رسالت کا کنول
تیسرے شعر میں کہا گیا ہے کہ قضا کا تیر بہرکیف اللہ تعالیٰ کے ترکش میں ہے لیکن یہ تیرِ قضا، کمانِ محمد سے چلتا ہے۔ صوفی غلام مصطفی تبسمؔ نے قضا کو رضائے حق قرار دیا ہے۔ گویا رضائے حق، رضائے محمد ہے۔ یہ شانِ عبدیت کی انتہا ہے کہ بندے اور اللہ کی رضا ایک ہوجائے۔ بندہ رضائے حق کا پیکر بن جائے اور رضائے حق اس کی جنبشِ ابرو کی منتظر ہو۔ قرآن پاک نے واضح طور پر کہہ دیا کہ ذاتِ الٰہی کی محبت، نبی کی اطاعت میں مضمر ہے اور نبیٔ کریم نے فرما دیا کہ ان کی محبت کے بغیر، ایمان تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ حق یہ ہے کہ قلبی لگائو کے بغیر حقیقی اطاعت کا کوئی سا تصور بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا واحد ذریعہ اسوۂ رسول کی پیرو ہے اور ان کی ہدایت کے مطابق اپنا راستہ، اپنا رُخ اور اپنی منزل کاتعین کرناہے۔جناب ماہرؔالقادری کے الفاظ میں’’رسول اللہ، اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب و مقرب اطاعت گزار بندے تھے۔ حضورa نے اپنی مرضی کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردیا تھا۔ حضور کا قدم صراطِ مستقیم سے بال برابر ادھر نہیں ہوا۔ آپ کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا تھا کہ قبولیت و اجابت تو نطقِ محمدی کی راہ دیکھتی رہتی تھی۔‘‘
غالب کا یہ کہنا کہ قضا کا تیر گو ترکش خداوندی ہے مگر وہ چلتا، کمانِ محمد سے ہے۔ اس امر کو بھی واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور خوشنودی کا راز محمد کی ناراضی اور خوشنودی میں پوشیدہ ہے۔ ہم گنہ گار ہیں۔ ہر لحظہ لغزشوں کا شکار ہیں۔ مگر اپنی ان لغزشوں پر ہمیں ندامت بھی ہوتی ہے۔ یہی ندامت مغفرت کی سند ہے۔ وہ التجا اور وہ دعا جس کے ساتھ دل کی دھڑکنیں، نگاہوں کی آرزوئیں اور روح کی لرزشیں شامل ہوں۔ تیر بہدف ہے اور اس سے ٹکرا کر قضا اپنا رُخ بدل لیا کرتی ہے۔ ندامت کے آنسوئوں کی نمی، رخساروں کو چھو جائے تو انھیں دوزخ کی آگ نہیں چھو سکتی۔ التجا وہ ہوتی ہے جس میں سینے کی ہوک شامل ہو اور جس کے آہنگ میں بدن کا رؤاں رؤاں اپنی لَے ملا دے:
مانگی ہے دعا کس نے الٰہی کہ کھلا ہے
آغوش تمنا کی طرح باب اثر آج
یہ تو بندوں کی التجائوں کا عالم ہے۔ جہاں تک حضورa کی دعا کا تعلق ہے، وہ تو نصِ قرآنی کے مطابق سکون و رحمت کا لازوال خزینہ اور معتبر ذریعہ ہے۔ کمانِ محمد سے چلنے والا یہی وہ تیر ہے جو آسمان سے اُترتی ہوئی بلائوں کو راستے ہی میں جا لیتا ہے یہ دعا، سرِّ عبادت اور شانِ عبودیت ہے اور تیز دھار والی انی سے بھی کہیں زیادہ مؤثر اور کارگر ہے۔ تاثیر کے لیے ضروری ہے کہ بات دل سے نکلے اور اسلوبِ بیان بھی برجستہ ہو۔ نیز حرف موزوں کے لیے ہنگام موزوں بھی ضروری ہے۔ رات کے پچھلے پہر، نوائوں میں جو گداز اور التجائوں میں جو سوز ہوتا ہے، اس سے وہی دل آگاہ ہیں جو ستاروں کو اپنا رازداں بنانے کی توفیق سے بہرہ ور ہیں:
سونے والو، تم کو اس لذت سے آگاہی نہیں!
رات ساری عشق کی آنکھوںمیں جب کٹ جائے ہے
نالۂ شب گیر کے یہ سفیر، اسمِ محمد کے طفیل بارگاہِ ناز میں باریاب ہوا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی ثنا کے بعد اوّل و آخر حضور پر درود نہ بھیجا جائے اس وقت تک دعائوں کے تیر، بے تاثیر رہتے ہیں۔ درود، نبیٔ کریم سے تعلقِ خاطر کا ایک خوب صورت حوالہ ہے۔ یہ حوالہ خدا کی خوشنودی کا سبب بنتا ہے۔ چوںکہ اسے بہرنوع قبولیت کا شرف حاصل ہے، اس لیے اس کے جلو میں پیش کی جانے والی التجائوں کو رحمتِ حق مسترد نہیں کیا کرتی۔
اس شعر میں تیر اور کمان کے الفاظ شعری تلازمہ بھی ہیں اور فکری صداقت کے عکاس بھی۔ قرآن مجید میں کمان کے بجائے قوس کا لفظ استعمال ہوا ہے کہ کمان فارسی لفظ ہے قوس کا مادّہ ق و س ہے۔ نواب صدیقؔ حسن خاںؒ کے مطابق اس کا خاصہ شدت اور اجتماعیت ہے۔ کمان میں سختی بھی پائی جاتی ہے اور اس کے دونوں سروں کے ملے ہوئے ہونے کے اعتبار سے اتصال و اتفاق بھی۔ تیر قضا کا کمان محمد سے چلنا، من و توُ کے فاصلے کا قربت اور یک جائی میں بدل جانا ہے، مراد مزاجِ یار کے روبرو سرِ تسلیم کو خم کردینا ہے اور نتیجہ حسن و عشق کی رضا کا ایک ہوجانا ہے۔ اقبالؔ اسی لیے بندۂ مومن کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کہہ کر اسے غالب و کارآفریں اور کارکشا و کارساز قرار دیتا ہے۔ تیر اور کمان کے الفاظ اللہ اور اس کے عظیم الشان بندے کے درمیان رفاقت اور قرابت کی انتہا کو واضح کر رہے ہیں جو نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کا وما کان فضل اللّٰہ علیک عظیما۔ اس فضل عظیم اور التفات بے حد کے بغیر نیاز و ناز کی اس ہم آہنگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا:
ربط خاطر کی نزاکت کو سمجھ سکتا ہے کون
آرزو کی آپ نے، محو تجسّس ہم رہے
فکان قاب قوسین او ادنیٰ کی صاحبِ ’’لغات القرآن‘‘ نے تشریح کرتے ہوئے غالب کے اس شعر کو بڑے خوب صورت انداز سے منطبق کیا ہے کہ یہ آیت مقامِ نبوتؐ کے متعلق ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’ایامِ جاہلیت میں عربوں کا قاعدہ تھا کہ جب وہ ایک دوسرے سے محکم عہد باندھتے تو وہ دو کمانیں لیتے۔ ایک کو دوسری کے ساتھ ملا دیتے اور اس طرح ان دونوں کا قاب (کمان کا درمیانی حصہ اور ایک کنارے کا درمیانی فاصلہ) ایک کردیتے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ہم ایک جان دو قالب ہیں۔ ایک کی رضامندی دوسرے کی رضامندی ہے جو ایک چاہتا ہے وہی دوسرا چاہتا ہے۔ ہم دونوں
ہم آہنگ زندگی بسر کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ قرآن کریم نے نبی کے متعلق بتایا کہ وہ احکامِ الٰہی کا اس قدر متبع ہوتا ہے اور اپنی زندگی کو قوانینِ خداوندی کے ساتھ اس درجہ
ہم آہنگ کردیتا ہے کہ اس کا اور خدا کا تعلق گویا ان ساتھیوں کا سا تعلق ہوجاتا ہے، جنھوںنے قاب قوسین والا عہد کیا ہو۔ او ادنیٰ بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب تر تعلق۔ یہی وجہ ہے کہ حق کا استحکام جو نبی کی قوت بازو سے ہوتا ہے۔ اسے خود خدا اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ فلم تقتلوھم و لکن اللّٰہ قتلھم۔ وما رمیت اذ رمیت۔ وٰلکن اللّٰہ رمٰیo بدر کے میدان میں مخالفینِ حق کو تم نے قتل نہیں کیا، اللہ نے قتل کیا تھا۔ تم نے ان پر تیر نہیں چلائے تھے۔ اللہ نے چلائے تھے نبی اور خدا کا تعلق اسی قسم کی رفاقت اور ہم آہنگی کا تعلق ہے، غالبؔ کے الفاظ میں:
تیر قضا ہر آئینہ در ترکش حق است
اما کشاد آں ز کمانِ محمدؐ است‘‘
آپؐ اللہ تعالیٰ کی پیہم نوازشوں کا مظہر ہیں۔ آپؐ کے نقوشِ پا کی بہار قدم قدم اور روش روش گلاب کھلاتی جا رہی ہے۔ آپؐ کا دامانِ بخشش ہر دور، ہر عہد اور ہر صدی کو محیط ہے۔ آپؐ ہی منزلِ صدق و صفا کے رہنما اور رحمت و رافت کا بحر بے کراں ہیں۔ آپؐ گلزارِ ازل کے وہ گل شاداب ہیں جس کی خوش بو ابد آثار ہے اسی لیے مولانا جامیؔؒ نے آپؐ کو ’’تازہ تر گلبرگ صحرائے وجود‘‘ قرار دیاتھا۔ انھی حقائق پر حضرت خواجہؔ محمد معصومؒ نے اپنے ایک مکتوب میں یوں روشنی ڈالی ہے ’’انبیائے علیہم السلام آپؐ کے سرچشمۂ آبِ حیات کے ایک پیالے سے سیراب و مستفید ہیں اور اولیاء اللہ آپؐ کے بے پایاں سمندر کے ایک گھونٹ پر قانع او منتفح ہیں۔ فرشتے ان کے طفیلی اور آسمان ان کی حویلی ہے۔ وجود کا رشتہ ان کے ساتھ منسلک، ایجاد کا سلسلہ ان کے ساتھ مربوط اور ربوبیت کا ظہور ان کے ساتھ وابستہ ہے۔ جملہ کائنات ان ہی کے پیچھے ہے اور کائنات کا بنانے والا (اللہ تعالیٰ) ان کی رضا کا طالب ہے۔ جیساکہ حدیث قدسی میں آیا ہے، انا الطلب رضاک یامحمد۔ ’’اے محمد میں تیری رضا چاہتا ہوں۔‘‘
نماند بد عصیاں کسے در گرد
کہ دارد چنیں سیّدے پیش رو
’’جس کا امام ایسا سردار ہو وہ شخص گناہوں کے بدلے میں گروی نہ رہے گا۔‘‘
اس نعتیہ غزل کے چوتھے شعر میں غالبؔ کہتے ہیں کہ اگر لولاک لما خلقت الافلاک کا ادراک ہوجائے تو تجھے اس حقیقت سے آگاہی ہوجائے گی کہ (بقولِ اقبالؔ) خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے اور تجھے اس کی معرفت بھی مل جائے گی کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے وہ محمد کا ہے اور محمد کے لیے ہے۔ انسان خلاصۂ کائنات ہے اور جملہ محاسن انسانی کا خلاصہ انبیا ہیں اور تمام انبیا کی خوبیوں کا مجموعہ حضور ہیں، گویا آپؐ صاحبِ لولاک اور روحِ کن فکاں ہیں اور باعثِ تکوین روزگار ہیں، غالبؔ ہی کا کہنا ہے:
اے خاک درت قبلۂ جان و دل غالبؔ
کز فیض تو پیرایۂ ہستی است جہاں را
چوںکہ آپؐ ہی کے فیض سے ہستیٔ کائنات کی آرائش و زیبائش ہے، اس لیے آپؐ کی خاک در غالبؔ کے لیے قبلۂ مراد اور کعبۂ مقصود ہے۔ آپؐ خالق کے دل کی اوّلین تمنا ہیں اس لیے ہر نوع سے تخلیقِ کائنات کا منشا ہیں۔ بہادرؔ یار جنگؒ کہتے ہیں:
اے کہ ترے وجود پر خالقِ دوجہاں کو ناز
اے کہ ترا وجود ہے وجودِ کائنات
پانچویں شعر میں غالب نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ قسم ہمیشہ عزیز شے کی کھائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ واقعات کے تسلسل کو سمجھانے کے لیے، بعض امور واقعی پر زور دینے کے لیے اور بعض حقائق کو واضح کرنے کے لیے جانِ محمد کی قسم کھاتے ہیں بلکہ ان مقامات کو بھی بطورِ شہادت پیش کرتے ہیں، جن کا تعلق نبیٔ کریم کی ذات والا صفات ہے۔ مکان تو سبھی اینٹ اور پتھر ہی کے ہوتے ہیں، مگر وہ مکین کی نسبت سے معزم و محترم ہو جایا کرتے ہیں۔ دیکھنے والے ان راستوں کو بھی، دل کی ساری عقیدتوں کو اپنی پلکوں میں سمیٹ کر چومتے ہیں، جو محبوب کی گزرگاہ ہوتے ہیں، سچ یہ ہے کہ اس ذات گرامیؐ قدر کے خرام ناز کا فیض ہے کہ عرب کی ریت اپنے اندر ریشم کا لوچ لیے ہوئے ہے اور یہ انھی کے انفاس کی مہک ہے کہ وہ ریگستان ایک عالم کو خوش بو بانٹتا چلا جارہا ہے۔ مدینہ محبتوں کا مرکز اسی لیے ہے کہ وہاں محمدa کی بارگاہ ہے۔
اے زمیں از بارگاہت ارجمند
آسماں از بوسۂ بامت بلند
حضرت محمد کے اسم گرامی قدر کی قسم کھانا تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا نشانِ امتیاز ہے۔ ہم لوگ تو ان راہوں، ان وادیوں، ان غاروں اور ان پتھروں کو ارادت کا مرکز بنائے ہوئے ہیں جنھوںنے صدیوں پہلے اس ذاتِ مکرم و محترم کو دیکھا تھا۔ ہم تو معبود بھی اسی اللہ تعالیٰ کو مانتے ہیں جس کا پتا ہمیں حضور نے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجرِ اسود کو خانہ کعبہ کی نسبت سے بوسہ نہیں دیا بلکہ اس لیے چوما تھا کہ اسے ختمی مرتبت پیغمبرِ اسلام کے لب ہائے مبارک نے مس کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ہو یا خانہ کعبہ کا تقدس ہم اسے حضور ہی کے حوالے سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ورنہ خدا کو ابوجہل بھی مانتا تھا اور کفار بھی اللہ کے اس گھر کا طواف کیا کرتے تھے۔ ظفر علیؔ خاں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
اگر پروردگار انس و جاں کو ہم نے پہچانا
بلاشبہ و بلاشک اس کی وجۂ اوّلیں تم ہو
اللہ آپؐ کی قسم اسی لیے کھاتے ہیں کہ آپؐ کی زندگی پاکیزگیوں کا منبع، سعادتوں کا مرکز اور برکتوں کا ماخذ ہے اور یہ صرف اس لیے کہ آپؐ کا لمحہ لمحہ اس ذاتِ حفیظ و بصیر کی نگاہوں میں تھا۔ حضرت ابن عباس ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ نے کوئی متنفس ایسا پیدا نہیں کیا جو حضور سے زیادہ اس کی نظر میں مکرم و محترم ہو اور آپؐ کے سوا کوئی نہیں جس کی زندگی کی اس نے قسم کھائی ہو۔‘‘
چھٹے شعر میں آپؐ کے حسن قد و قامت کے بارے میں تشبیہ سے کام لیتے ہوئے غالب یہ کہتے ہیں کہ واعظ کو جنت کے معروف شجر طوبیٰ کا ذکر چھوڑ دینا چاہیے کہ ’’سرورانِ محمد‘‘ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ گویا حضور کی خوشی قامتی کے مقابل نہ جنت کے درخت طوبیٰ کی کوئی حیثیت ہے اور نہ دنیا کے سرو و صنوبر کی۔ ہم اگر تشبیہی اعتبار سے ان اشیا کو مقابل لاتے ہیں تو مقصود ان اشیا کے حسن کا احساس دلانا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم ذکرِ رسالت مآب سے لفظوں کو اعتبار عطا کرتے اور اپنے وجود کے حوالے کو معتبر بناتے ہیں:
تشبیہ دے کے قامت جاناں کو سرو سے
اونچا ہر ایک سرو کا قد ہم نے کردیا
طوبیٰ بہر کیف سایہ دار ہے مگر ہمارے نبی بے سایہ ہوتے ہوئے بھی تپتے صحرائوں میں بھٹکتے ہوئے آبلہ پا مسافروں کے لیے ایک ایسے خنک سائے کی حیثیت رکھتے ہیں کہ وہاں پہنچ کر زندگی کے ہر اضطراب کو سکون و عافیت مل جاتی ہے۔
یوں مدینے میں پہنچ کر دل کو ملتا ہے سکوں
جیسے اک زخمی پرندہ آشیاں تک آگیا
تشبیہ کا اصول یہ ہے کہ مشبہ بہ کو قدر و قیمت کے اعتبار سے مشبہ سے برتر ہونا چاہیے۔ جب کہ یہاں جس مشبہ کا ذکر ہے اس کے روبرو تو ہر مشبہ بہ کا ہر حسن ماند ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کبھی بدر کامل کو دیکھتے اور کبھی نبیٔ کریم کے چہرۂ انور کو اور انھیں چاند پھیکا پھیکا سا لگتا کہ ان کی نگاہوں کے سامنے ایک ایسا حسن جلوہ فرما تھا کہ اسے جلوے بھی ایک نظر دیکھ لیں تو طواف نظر کرتے رہ جائیں۔ وہاں تو نگاہیں سیر ہی نہیں ہوتی تھیں۔ دیکھ دیکھ کر، پھر دیکھنے کو جی چاہتا تھا:
دیر سے آنکھیں نہیں جھپکی مری
پیش جاں اب کے نظارہ اور رہے
نبیٔ اکرم کا چہرۂ اقدس، رُخِ جمالِ الٰہی کا آئینہ تھا۔ وہ کونین کا حاصل تھے اور انھی کے لیے آب و گل میں مدتوں آرائشیں ہوتی رہیں۔ انھی کے مژدے صحائف سناتے رہے اور اسی قافلۂ سالار کا پتا، حسن و عشق اور نیاز و ناز کے اس عظیم قافلے کا ہر ممتاز راہی دیتا رہا۔ اقبالؔ کا یہ شعر اپنے اندر حقائق کی کتنی ہی تہہ در تہہ پرتیں لیے ہوئے ہے:
آیۂ کائنات کا معنیٔ دیر یاب تو
نکلے تری تلاش میں قافلہ ہائے رنگ و بو
اور آج جس کو خوش قسمتی سے، خواب میں بھی ان کی زیارت ہوجاتی ہے وہ تمام عمر تصور کی اس رعنائی اور تصویر کی اس زیبائی کو سنبھالتا اور اس پر ناز کرتا رہتا ہے۔ حضرت احسانؔ دانشؒ کو یہ نعمت نصیب ہوئی تھی کہ انھوںنے یہ اعتراف کیا تھا:
چوما ہے اپنی آنکھوں کو رکھ رکھ کے آئینہ
ہوئی ہے جب بھی مجھ کو زیارت حضورؐ کی
گویا رسول اللہ تجلیٔ الٰہی کا انسانی پیکر تھے۔ غالب نے اس کا اظہار اپنے ایک اردو شعر میں بھی کیا تھا جس میں انھوںنے کہا تھا کہ نور کی تجلی تیری شکل میں ظاہر ہونا چاہتی تھی، تیرے قد و رُخ سے اس کے ظہور کا ستارہ چمک اُٹھا یعنی وہ تیرے قد و رُخ میں ظاہر ہوگئی، یوں اس کی قسمت کھل گئی یعنی اس کے دن پھر گئے اور اس کے بھاگ جاگ اُٹھے:
سر و قد دیکھے ہیں تاریخ نے لاکھوں لیکن
قد کسی کا بھی ترے قد سے نہ اونچا دیکھا
ساتویں شعر میں شق القمر کے واقعے کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ شعر تلمیحی حسن کے ساتھ ساتھ شاعرانہ لطافت بھی لیے ہوئے ہے کہ ماہِ تمام ’’دو نیم‘‘ ہوگیا اور یہ نتیجہ ہے آپؐ کی انگشت مبارک کی ’’نیم جنبش‘‘ کا۔ معجزات عرفانِ حق کے لیے ایک بدیہی ثبوت ہوتے ہیں، جو انبیا کے ذریعے منکرین تک پہنچتے ہیں۔ اس میں انبیا کے اپنے ارادہ و قدرت کو دخل نہیں ہوتا بلکہ وہ سراسر حکمِ الٰہی اور تائیدِ الٰہی سے صادر ہوتے ہیں۔ بسااوقات انبیا کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ ان کے ہاتھوں کون سا اعجاز ظہور پزیر ہونے والا ہے۔ زمانے بھر کی تحیر آفرین سائنسی اور عقلی ایجادات اپنے حدِ کمال کو پاکر بھی انبیا سے ظاہر ہونے والے کسی معجزے کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتیں۔ کیوںکہ ایجادات ہر نوع سے سائنسی آلات کی محتاج ہیں جب کہ معجزے میں ظاہری اسباب نہیں ہوا کرتے اور نہ زمانہ کسی معجزے کی کوئی عقلی اور مادّی توجیہہ کرسکتا ہے۔ معجزہ ’’خارق عادت‘‘ ہے۔ وہ اس دنیائے اسباب سے بے نیاز ایک ایسا بالاتر فعل ہے جو ہر زمانے کی ہر عقل کو عاجز کردینے کے لیے کافی ہے اور ’’نبی کے فعل اور اس کے معجزے کے درمیان بھی کوئی علاقہ تاثیر نظر نہیں آیا کرتا‘‘ مثلاً ’’لاٹھی کے ڈالنے اور اس کے اژدھا بن جانے میں کیا سببیّت ہے؟ اس طرح آپؐ کے انگشتان مبارک سے پانی کے چشمے اُبل پڑنے میں کس علاقۂ تاثیر کا دخل کہا جاسکتا ہے؟ بعینہٖ انگلی کے ایک اشارے اور چاند کے دو ٹکڑے ہوجانے میں کیا علاقۂ تاثیر ہے؟‘‘ گو معجزہ کلیتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کفار کی طرف سے معجزے کا اصرار ہوتا ہے اور نبی کی آرزو، دعا کے روپ میں اُبھرتی اور معجزے کی تکمیل بن جاتی ہے۔ چاند کے دو نیم ہونے کا معجزہ بھی کفار کے اصرار پر رونما ہوتا ہے اور اس کی روایت عینی شاہدوں کے وسیلے سے، تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچتی ہے۔ یہ متفق علیہ بات ہے۔ انس بن مالکؓ، ابن مسعودؓ اور جبیر بن مطعمؓ راوی ہیں۔ اس معجزے کے بعد سورۃ القمر نازل ہوئی۔ یہ ہجرت سے پہلے کی بات ہے۔ یہ معجزہ منیٰ میں ظاہر ہوا۔ اہلِ مکہ ہی نے نہیں، باہر سے آنے والے قافلوں نے بھی چاند کو دو نیم ہوتے دیکھا۔ اس معجزے کا تذکرہ بطور روایت نہیں، بطور شہادت ملتا ہے۔ یہ حضور کی رسالت کا ثبوت بھی ہے اور قیامت کی دلیل بھی کہ اگر چاند دو نیم ہوسکتا ہے تو وقت آنے پر آسمان کی بساط بھی لپٹ سکتی ہے۔ شق القمر کا واقعہ، واضح صداقت پر مبنی ایک مشاہدہ تھا اور نبیٔ کریم نے اس پر سب کو گواہ بنایا:
وہ چاہیں تو طلوع ہو مغرب سے آفتاب
وہ چاہیں تو اک اشارے سے شق قمر کریں
بعض اسے محض ایک فطری واقعہ سمجھتے ہیں۔معجزہ قرارنہیں دیتے،مگر حق یہ ہے کہ چاندفی الواقع اشارۂ رسالت مآب سے دو ٹکڑے ہوا۔ دیکھنے والوں کی آنکھوں پر کسی انداز سے بھی کوئی تصرف نہ تھا بلکہ تصرف قدرت نے چاند پر کیا تھا۔ اسی لیے اسے دلیلِ قیامت ٹھہرایا گیا۔ ساحری میں نگاہوں پر تصرف ہوتا ہے مگر معجزے میں ’’انقلابِ حقیقت‘‘ ہوا کرتا ہے:
شق القمر فلک پہ دکھا کر جنابؐ نے
بدلی ہے ممکنات سے صورت محال کی
آٹھویں شعر کا مفہوم یہ ہے کہ اگر مہرِ نبوت کی حقیقت کے بارے میں غور کیا جائے تو یہ بات کھل جاتی ہے کہ یہ مہرِ نبوت آپؐ ہی کی ذاتِ گرامی قدر سے نامور اور سرفراز ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضور اقدس کی مہرِ نبوت کو آپؐ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان دیکھا۔ جو سرخ رسولی جیسی تھی اور مقدار میں کبوتر کے انڈے جیسی۔‘‘ غالبؔ کے نزدیک یہ مہرِ نبوت نسبتِ رسالت سے معزز و مقدس ہے۔ یہ تو حضور کے وجودِ اطہر کا ایک حصہ ہے۔ ہمارے نزدیک تو آپؐ کا ہر قرینہ، ہر سلیقہ، ہر رُخ، ہر اشارہ اور ہر زاویہ، اپنے اندر محبت اور عقیدت کے کئی انداز لیے ہوئے ہے اور زمین کا وہ ٹکڑا حقیقتاً آسمان ہے جہاں وہ وجودِ ناز، آسودہ ہے۔ مہرِ نبوت بھی اسی تعلق اور اختصاص کی بنا پر نامور ہے۔
آخر میں غالبؔ کہتے ہیں کہ میں اپنے ممدوح کی مدحت، اللہ تعالیٰ پر چھوڑتا ہوں کہ وہی ان کے رُتبے کو جانتا ہے ہم لوگ تو اس بے پایاں حسن کی تحسین، اسی حد تک کرسکتے ہیں جس حد تک ذرّہ آفتاب کا احاطہ کرسکتا ہے۔ حق یہ ہے کہ اظہار و بیان کا کوئی سا پیرایہ بھی، اس جمال بے مثال کو بیان نہیں کرسکتا۔ ہم لوگ نعت سرائی سے ممدوح کی شان میں کوئی اضافہ نہیں کرتے بلکہ خود کو بلند و بالاتر کرتے ہیں، آفتاب کو اگر آفتاب کہہ کر پکار لیں تو اس کا آفتاب پر کوئی احسان نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ ثبوت ہے، اس بات کا کہ دیکھنے والے کی نظر صحیح و سالم ہے۔
مادحِ خورشید، مداح خود است
حقیقت یہ ہے کہ توصیف اور درود کا حق بھی اللہ تعالیٰ ہی ادا کرسکتے ہیں کہ وہی ’’مرتبہ دان محمد‘‘ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
عن درک و صفہ جاھل و بقصر فہمہ قائل۔ اللّٰہ یعلم شانہ و ھوالعلیم بیانہ۔
(تیرا مداح، تیرے وصف دریافت کرنے سے جاہل ہے اور اپنے قصور فہم کا معترف ہے۔ اللہ ہی ان کی شان خوب جانتا ہے اور وہی جانتا ہے اس کے بیان کرنے کو)
حضور سے ایک درود منقول ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’اے اللہ! درود نازل فرما سیّدنا محمد پر جیسا کہ تو نے حکم دیا کہ ہم درود بھیجیں اور اے اللہ! ان پر درود نازل فرما جیساکہ ان کی شان کے شایاں ہے۔‘‘
نعت چوںکہ درود و سلام ہی کی ایک نغماتی شکل ہے۔ اس لیے اس کا حق نعت گو ادا نہیں کرسکتا کیوںکہ اس کی سوچ ناقص، اظہار محدود اور تصور مسدود ہے۔ اس لیے اپنی بساط کے مطابق نعت سرائی کے بعد، کماحقہ، نعت کا حق، اللہ تعالیٰ ہی پر چھوڑ دینا چاہیے اور قلم قلم اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ کہ ’’حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا‘‘ فارسی اور اردو شاعری میں نعت کہنے والوں کی بے بضاعتی کا اعتراف جابجا ملتا ہے مگر اس مقام پر ناصرؔکاظمی مرحوم کی ایک نعت کے دو بند قابلِ ذکر ہیں کہ وہ اس خیال کے آئینہ دار بھی ہیں اور خود غالبؔ ہی کے اشعار پر تضمین بھی:
خط جبیں ترا اُم الکتاب کی تفسیر
کہاں سے لائوں ترا مثل اور تری نظیر
دکھائوں پیکر الفاظ میں تری تصویر
مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے
تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
غالب کی نعتیہ غزل کا یہ آخری شعر اس قدر معرو ف ہے کہ آج نعت کا کوئی سا بیان بھی اس کے حوالے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ممدوح کی بے پایاں رفعتوں کے مقابلے میں جب لکھنے والے کو اپنی نارسائی کا احساس ہوتا ہے تو فوراً قلم کی نوک پر یہ شعر آجاتا ہے۔ اس شعر کی اس قدر مقبولیت، دلیل ہے اس بات کی کہ اسے بارگاہ ناز میں بھی شرفِ قبول حاصل ہے کیوںکہ جو بات دل سے نہ نکلے وہ ہر دل کی صدا نہیں بن سکتی۔ حالیؔ سے لے کر حال تک، اس نعت پر بہت سی تضمینیں بھی کی گئیں اور اردو نعت نے اس سے نہ صرف تاثر لیا بلکہ یوں استفادہ کیاکہ ہم مضمون اشعار کے ڈھیر لگ گئے۔ یہ اخذ و استفادہ ارادتاً بھی ہوا اور بے ساختہ بھی۔
الغرض رسمی اسلوب سے ہٹی ہوئی یہ ایک ایسی نعت ہے جو ہیئت کے اعتبار سے منزل نشاں اور مواد کے اعتبار سے جہت نما ہے۔ فنی اعتبار سے تو اس نعت کو قابلِ قدر ہونا ہی تھا کہ کہنے والا وہ شاعر ہے جس کے لبِ اعجاز پر نطق مدتوں ناز کرتا رہے گا، مگر معنوی اعتبار سے بھی یہ نعت قابلِ تقلید ہے کہ اس میں قرآنی حقائق کی عکاسی کے ساتھ ساتھ سیرت کے درخشاں پہلو بھی ہیں، حسن ممدوح کی کیف سامانیوں کا تذکرہ بھی ہے مگر غزل کی مبالغہ آفرینیوں سے دامن کشاں اور آخری شعر میں قدرتِ بیان کے باوصف عجزِ بیان کا اعتراف، اسے ایک بھرپور اور مکمل نعت کا اعزاز عطا کرتا ہے اور دورِ حاضر کی نعت گوئی اسی انداز کو اپنا اعتبار اور افتخار بنائے ہوئے ہے۔
آخر میں اس نعت کے تناظر میں ایک نظریہ بھی دیکھیے کہ وہ ذات بلند و برتر جسے غالب ’’مرتبہ دانِ محمد‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کسی اسلوب و ادا کے ساتھ مدحت کے اندازسمجھاتی ہے۔وہ ذات تمام انبیاکو ذاتی ناموںسے پکارتی ہے مگرحضور کو وصفی ناموں کے ساتھ مخاطب فرماتی ہے۔ ایسے نام جن سے محبت، شفقت اور عزت کا اظہار ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اپنی آواز پست رکھنے کا حکم ہے، ورنہ اعمال کے ضائع ہوجانے کا خطرہ ہے۔ اپنے ساتھ ساتھ فرشتوں اور بندوں کو بھی درود و سلام کا حکم دیا جاتا ہے اور یہی وہ واحد مقام ہے کہ اللہ، فرشتے اور بندے ہم آواز بھی ہیں اور ہم مقام بھی۔ ورنہ تینوں کے مقامات الگ الگ ہیں۔ پھر حضور کو پیار سے اپنا بندہ کہا جاتا ہے۔
عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار، او منتظر
عبدیت، انسانی عظمت کا بلند ترین مقام ہے، وہ ذات، صفاتِ محمد کی قسم کھا کھا کر بات کرتی اور بات سمجھاتی ہے اور اپنی رضا کو ان کی رضا سے یوں ہم آہنگ کرتی ہے کہ قبلے کی تبدیلی کی آرزو دلِ محبوب میں مچلتی ہے۔ زبان سے اظہار بھی نہیں ہونے پاتا اور نگاہ کی آرزو ہی سے قبلہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ گرامیؔ نے کہا تھا:
قضا گیرد، قدر گیرد، ازل گیرد، ابد گیرد
رکابش را عنانش را، عنانش را، رکابش را
اور پھر دینے والے نے واضح کردیا کہ وہ کچھ عطا کیا جائے گا کہ لینے والے کا دل باغ باغ ہوجائے گا اور ساتھ ہی ذکر کو ایسی رفعت عطا کردی کہ اوقاتِ عالم کا ایک ثانیہ بھی ایسا نہیں گزرتا جو ذکرِ رسول سے معمور نہ ہو۔ آپؐ کی سیرت کو قرآن پاک کا عکس بنا دیا گیا ہے اور آپؐ کو مرکز انوارِ انبیا بنا کر بھیجا گیا اور آپؐ کی رحمتوں کو عام کردیا گیا۔ آپؐ سیّدالاوّلین ہیں کہ جتنے نبی پہلے گزر چکے آپؐ ان کے سرتاج ہیں۔ آپؐ سیّدالآخرین ہیں کہ صحابہ کرامؓ سے لے کر قیامت تک جتنے صالحین آئیںگے ان کی زندگیاں، انوارِ محمد سے مستنیر ہوںگی، اسی لیے اقبالؔ نگاہِ عشق و مستی میں انھی کو اوّل بھی کہتا ہے اور آخر بھی۔۔۔ اسی لیے مولانا رومؔؒ کے نزدیک نامِ احمد، جملہ انبیا کو محیط ہے اور یوں بسم اللہ سے لے کر والناس تک، پورا قرآن آپؐ ہی کا حسین و جمیل تذکرہ ہے۔۔۔ اس طویل مضمون کو غالبؔ ہی کے ایک فارسی نعتیہ شعر پر ختم کرتا ہوں جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور کا نام لینے سے میری گفتار میں جان کی سی حلاوت آگئی ہے، محبت کی اس تاثیر کی وجہ سے میرے دل نے میری زبان اپنے اندر کھینچ لی ہے یعنی میں خاموش ہوگیا ہوں۔ اس لیے بھی کہ اس نعمت کا شکر لفظوں میں ادا نہیں ہوسکتا اور اس لیے بھی کہ اب دل اندر ہی اندر لطف اندوز ہو رہا ہے:
تا نام تو شیرینیٔ جاں دادہ بہ گفتن
در خویش فرو بردہ دل از مہر زباں را
تحریر: پروفیسر محمد جاوید اقبال