
شاعری اور مسائلِ حیات
کسی نے کہا ہے کہ شاعری" مسائل حیات کے اظہار اور اس کی ترجمانی کا نام ہے"۔ میں آج خود سے یہی سوال پوچھتا ہوں کہ شاعری کے تعلق سے مسائل حیات کے آخر کیا معنی ہیں۔ روٹی کپڑا مکان اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل بھی مسائل حیات کے ذیل میں آتے ہیں۔ اپنوں، ہمسایوں اور ہسپتال میں لب دم سسکتے ہوئے بیماروں کو دیکھ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ بھی مسائل حیات کے ذیل میں آتی ہے۔ معاشرے میں جو نا انصافیاں ہیں اور جو ظلم و جبر ان نا انصافیوں کی کوکھ سے جنم لے رہا ہے وہ بھی مسائل حیات کے ذیل میں آتا ہے۔ آپ کے ذاتی مسائل، دکھ درد، غم روزگار، غم جہاں اور غم جاناں یہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں ۔ وہ نظام فکر، وہ روایات ، وہ چلن وہ طرز حیات جس نے معاشرے کو منجمد کر دیا ہے وہ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ معاشرے کے باطن میں ہونے والا اضطراب مخصوص حالات سے پیدا ہونے والی بے چینی اور اس بے چینی سے پیدا ہونے والے جذبات، احساسات اور خیالات یہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو کچھ زیر فلک انسان دیکھ رہا ہے، جو کچھ وہ کر رہا ہے اور اس کے کرنے سے جو صورتیں سامنے آرہی ہیں جو اچھائیاں یا برائیاں پیدا ہو رہی ہیں اور خیر و شر کی جو صورت حال وجود میں آرہی ہے وہ سب مسائل حیات کے ذیل میں آتی ہیں۔ ان کو بیان کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ ان مسائل حیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے کسی اخبار میں واقعاتی اور حقائق پر مبنی ایک مضمون لکھ دیں۔ اگر آپ اخبار کے مدیر ہیں تو اس موضوع پر اداریہ لکھ دیں گے۔ آپ اخبار کے شاعر ہیں تو اس پہلو پر کوئی نظم یا قطعہ لکھ دیں گے اور اس طرح اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر کے اپنا بوجھ ہلکا کر دیں گے لیکن جب میں شاعری کی بات کرتا ہوں تو مسائل حیات کے تعلق سے اس میں دو سطحوں کا ہونا لازمی ہے. ایک سطح یہ ہے کہ مسائل حیات کے تعلق سے جب آپ شعر پڑھیں تو آپ کی توجہ اس مسئلہ کی طرف جائے جس کا اشارہ اس شعر میں اس انداز سے کیا گیا ہے کہ بات آپ کے دل میں اتر گئی ہے۔ یہ وہ سطح ہے جو شاعر کے ہم عصر انسانوں او اور خود شاعر کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ شعر اس لیے دامن دل کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے کہ اس میں کسی اہم واقعہ کسی اہم بات کسی اہم مسئلہ کی طرف اشارہ ہے لیکن اگر یہ شعر کسی ایسے انسان کو جو اس معاشرے سے تعلق نہیں رکھتا، متاثر نہیں کر رہا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ شعر میں صرف ایک سطح اور ایک ہی تہ ہے اس لیے یہ شعر اس وقت تک ان لوگوں کے درمیان زندہ رہے گا جب تک اس مخصوص واقعہ کا اثر ان کے دلوں پر قائم رہے گا۔ ایسا شاعر جو روز مرہ کی زندگی کے واقعات کو شعر کا جامہ پہناتا ہے اپنے دور میں مقبول ہوگا لیکن جب یہ دور سمٹ جائے گا تو اس کی شاعری بھی اسی کے ساتھ طاق نسیاں کی نذر ہو جائے گی بیشمار ایسے شاعر ہیں جو ہمیشہ اپنے زمانے کی ترجمانی کر کے یہ کام کرتے رہے ہیں لیکن ہر بڑے شاعر کے ہاں شعر کی دو سطحیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ سطح جس سے وہ اپنے دور کی ترجمانی کر رہا ہے، دوسری وہ سطح جو اس کے عہد سے ماورا ہوتی ہے۔ غالب، میر، اقبال، مولانا روم، حافظ و سعدی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ مثلاً میر کو لیجیے۔ میر کی شاعری میں جو تیور، جو لہجہ، جو رنگ اور غم و کرب کی جو کیفیت نظر آتی ہے اس کا تعلق اس کے عہد کے اس کرب سے ہے جب مغلیہ تہذیب زوال کی طرف تیزی سے جا رہی تھی عظیم تہذیب کی دیو ہیکل عمارت ملبہ بن رہی تھی اور اس دکھ میں سارا معاشرہ مبتلا تھا۔ میر نے اس دور کی زندگی کے دریا سے اس دکھ کو اٹھایا اور اپنی شاعری کی روح میں جذب کر دیا ۔ اسی لیے میر اپنے دور کا مقبول شاعر تھا۔ مقبول اس لیے کہ اس نے معاشرے کے باطن میں ہونے والے دکھ درد کو، اس کے کرب اور غموں کو، ان واقعات کے حوالے سے، اس طرح بیان کیا کہ اٹھارویں صدی کی روح حیات کی نبض پر میر کی انگلیاں جم گئیں۔ اس لیے میر اپنے دور کا ترجمان اپنے دور کا نمائندہ شاعر ہے۔ اس کے اشعار میں اٹھارویں صدی کے انسان کے لیے ان واقعات کی طرف ایسے درد انگیز اشارے موجود تھے کہ میر کا شعر اس کے دل میں رہ جاتا تھا۔ اگر میر کا شعر صرف اپنے دور کے لیے مخصوص ہوتا تو آج میر کی شاعری کا رنگ کبھی کا اُتر جاتا لیکن میر نے اس کرب کو، اس غم و اندوہ کو آنے والے زمانوں کی روح سے ملا دیا اسی لیے میر کا غم ذاتی ہوتے ہوئے بھی ذاتی نہیں ہے، وقتی ہوتے ہوئے بھی وقتی نہیں ہے۔ میر کے شعر آج بھی ہیں اسی طرح متاثر کرتے ہیں جس طرح وہ اپنے دور میں کرتے تھے۔ اسی لیے میر ہر بڑے شاعر کی طرح دو سطحوں کے شاعر ہیں اور یہ دونوں سطحیں مل کر میر کو بڑا شاعر بناتی ہیں۔ میر اپنے دور کے مقبول ترین شاعر تھے اور آج بھی ہیں، جبکہ ان کا زمانہ اور ان کا دور کبھی کا ختم ہو چکا ہے، وہ بڑے اور مقبول شاعر ہیں۔ تو گویا "مسائل حیات ہی شاعری کا خام مواد ہوتے ہیں۔ شاعری کا تانا بانا اسی سے بنتا ہے لیکن شاعر ان مسائل حیات کو کس طرح اور کس انداز سے شاعری میں ڈھالتا ہے دراصل یہ وہ پہلو ہے جس سے شاعری کے درجے مقرر ہوتے ہیں۔
سترہ اگست ۶۱۹۸۸
تحریر: ڈاکٹرجمیل جالبی