قدسیؔ کی غزل پر غالبؔ کی تضمین
شاہ جہانی دربار کے ملک الشعرا قدسی کی نعتیہ غزل کو جو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نعتیہ غزل کی اب تک سیکڑوں تضمینیں ہوچکی ہیں۔ ایک صاحب قاضی محمد عمر نے جو دہلی کے ہی باشندے تھے۔ ۱۸۵۶ء میں حدیث قدسی کے نام سے ان تضمینوں کا ایک مجموعہ مرتب کیا تھا یہ مجموعہ شاید جنگ آزادی ۵۷ء سے چند ماہ پہلے کے ایک نعتیہ مشاعرے کا گل دستہ تھا، اس میں بہت سے شعرا کی تضمینیں ہیں، چند کے نام یہ ہیں:
بہادر شاہ ظفر، غالبؔ، مومنؔ، مجروحؔ، صہبائیؔ، غلام امام شہید اکبر آبادی، حکیم آغا جان عیشؔ، ولی عہد بہادر شاہ مرزا محمد سلطان فتح الملک المتخلص بہ رمزؔ، صاحب عالم مرزا رحیم الدین حیا، صاحب عالم مرزا فخرالدین حشمتؔ ابن مرزا معظم بخت بہادر، نواب مرزا والا جاہ بہادر لکھنوی المتخلص بہ عاشق، محمد عبداللہ علوی، احمد حسن وحشت مرزا رحیم بیگ رحیم میرٹھی (مؤلف ساطع برہان جو اور بدرالدین جو نقشی تخلص کرتے تھے۔
حدیث قدسی کے علاوہ غالب کی یہ تضمین دو اور کتابوں میں موجود ہے اوّل سبدباغ دو در اور دوم بیاض فرحت۔ غالباً مرزا غالبؔ نے کسی جذبے کے تحت تضمین تو اس نعت کی کر دی تھی لیکن اسے اپنے منتخبہ دیوان میں شامل نہیں کیا کیوںکہ یہ کلیتاً ان کی ملکیت نہ کہلاتی۔
قاضی محمد عمر نے ’’حدیث قدسی کے آخر میں چند اشعار دیے ہیں جس میں تضمین نگاروں میں سے چند کے نام نظم کیے ہیں۔
آج پھر بزم سعادت کی ہے ترتیب نئی
جمع ہوتے ہیں سبھی مدح سرایان نبی
گوہر مملکت و سایۂ حق، مہر عطا
شاہ ذی جاہ ظفر مظہر نور قدسی
جس کی پیشانی سے ظاہر تھے فیوض ابدی
ساقیٔ میکدۂ علم و ہنر صہبائی
شیر میدان سخن، غالبؔ یکتائے زمن
فخر خوش فہمی و خوشگوئی و شیریں سخنی
مومنؔ و مضطرؔ و مدہوشؔ و حیاتؔ و حیدرؔ
بسملؔ و طالبؔ و آشفتہؔ و اسحاقؔ و غنیؔ
غالبؔ نے تضمین میں بھی اپنے ادبی وقار کو قائم رکھا ہے، ملاحظہ کیجیے:
کیستم تا بہ خروش آور دم بے ادبی
قدسیاں پیش تو در موقف حاجت طلبی
رفتہ از خویش بدیں زمزمۂ زیر لبی
مرحبا سیّد مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
اے کے روئے تو دہد روشنیٔ ایمانم
کافرم کافر اگر مہر منیرش خوانم
صورت خویش کشید است مصور دانم
من بیدل بجمال تو عجب حیرانم
اللہ اللہ چہ جمال است بدیں بوالعجبی
اے گل تازہ کہ زیب چمنی آدم را
باعث رابطۂ جان و تنی آدم را
کرد دریوزۂ فیض تو غنی آدم را
نسبتے نیست بذات تو بنی آدم را
بر تر از عالم و آدم تو چہ عالی نسبی
اے لبت را بسوئے خلق ز خالق پیغام
روح را لطف کلام تو کند شیریں کام
ابر فیضی کہ بود از اثر رحمت عام
نخل بستان مدینہ تو سرسبز مدام
زاں شدہ شہرۂ آفاق بہ شیریں رطبی
خواست چوں ایزد دانا کہ بساطے از نور
گسترد در ہمہ آفاق چہ نزدیک چہ دور
حکم اصدار تو در ارض و سمایافت صدور
ذات پاک تو دریں ملک عرب کرد ظہور
زاں سبب آمدہ قرآں بہ زبانِ عربی
وصف رخش تو اگر در دل ادراک گذشت
نہ ہمیں است کہ از دائرۂ خاک گذشت
ہمچو آں شعلہ کہ گر از خس و خاشاک گذشت
شب معراج عروج تو از افلاک گذشت
بہ مقامے کہ رسیدی نہ رسد ہیچ بنی
چہ کند چارہ کہ پیوند خجالت گسلم
من کہ جز چشمۂ حیواں نبود آب و گلم
من کہ چوں مہر درخشاں بد مد نور دلم
نسبت خود بہ سگت کردم و بس منفعلم
زاں کہ نسبت بہ سگ کوئے تو شد بے ادبی
دل غم مردہ و غم بردہ زما صبر و ثبات
ساری کن و بنمائی بما راہ نجات
داد سوز جگر ما کہ دہد نیل و فرات
ما ہمہ تشنہ لبانیم و توئی آب حیات
رحم فرما کہ زحد می گذرد تشنہ لبی
غالبؔ غمزدہ را نیست دریں غم زدگی
جز بہ امید ولائے تو تمنائے بہی
از تب و تاب دل سوختہ غافل نہ شوی
سیّدی انت حبیبی و طبیب قلبی
آمدہ سوئے تو قدسیؔ پئے درماں طلبی
تحریر: پروفیسر سیّد وزیر حسن