غالب اور ثنائے خواجہ ۔ ابتدائیہ
یہ منفرد کتاب دو ہزار نو میں شائع کی گئی تھی۔ نوادرات کی ٹیم صبیح رحمانی صاحب کی مشکور ہے کہ انہوں نے شفقت فرماتے ہوئے کتاب میں شامل تمام مضامین شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ سپاس گزار (نوادِرات)
ابتدائیہ
غالب ہمارا ایک بہت ہی بڑا فکری، ثقافتی اور تہذیبی اثاثہ بن چکا ہے اور اس کی بڑھتی ہوئی شناخت اور تفہیم روز ہمیں نئے سے نئے فکری خزانوں کی جھلکیاں دکھا رہی ہے۔
غالب پر گزشتہ ایک سو چالیس سال میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس میں حالی کی کتاب ’’یادگارِ غالب‘‘ اور ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری کی ’’محاسنِ کلامِ غالب‘‘ نمایاں ہیں۔ ’’محاسنِ کلامِ غالب‘‘ کا تو ابتدائی جملہ ہی غالب کے حوالے سے لکھا جانے والا الہامی جملہ بن گیا ہے۔ عبدالرحمٰن بجنوری نے لکھا تھا، ’’ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ’’مقدس وید‘‘ اور ’’دیوانِ غالب‘‘ صد سالہ جشن غالب پر ہندوستان اور پاکستان کے ہر ادبی اور نیم ادبی پرچے نے غالب کے فکر و فن اور زندگی پر وقیع مضامین شائع کیے اور بعض جرائد نے خصوصی نمبروں کا بھی اہتمام کیا جو اپنی ضخامت اور مواد کے حوالے سے یادگار قرار پائے لیکن مقامِ حیرت ہے کہ غالبیات کے اس سرمائے میں ہمیں غالب کی نعت نگاری پر کوئی ٹھوس اور قابلِ قدر کام نظر نہیں آیا۔ ضمناً کسی مضمون میں اس عنوان سے تذکرہ ہوجانا کوئی قابلِ ذکر بات نہیں۔ حالاںکہ غالب کے کلام کی الہامی جہت کی طرف ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے بڑے پُرزور انداز میں متوجہ کیا تھا اور الہام کا درجہ اسلامی معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر دینی اقدار سے جڑا ہوا ہے۔ چناںچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غالب کی فکر کے الہامی رشتوں کی تلاش شروع ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ جانے کیوں ماہرین غالبیات اب تک مطالعۂ غالب کے اس روشن پہلو پر خاطرخواہ توجہ نہیں دے سکے۔
الحمدللہ اس اہم موضوع پر غور و فکر کے دریچے وا کرنے کی سعادت غالب کی وفات کے تقریباً ایک سو بتیس سال بعد ’’نعت رنگ‘‘ کے حصے میں آئی۔ نعت کے ادبی فروغ کے لیے سرگرم عمل اس اہم کتابی سلسلے کے بارھویں شمارے (۲۰۰۱ء) میں غالب کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے ایک خصوصی گوشے کا اہتمام کیا گیا جس میں پاک و ہند کے نامور اہلِ علم نے غالب کی نعتیہ شاعری اور غالب کے افکار و نظریات میں عظمتِ رسولa اور عشقِ رسولa پر فکر انگیز مضامین لکھ کر فکرِ غالب کی مذہبی اساس کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔
نعتیہ شاعری جس عظیم اور عالی مرتبت ہستی (نبی کریم) کے حوالے سے وجود پاتی ہے اس کا تقاضا ہے کہ کم از کم ہر مسلمان شاعر اس سعادت کے حصول کے لیے کچھ نہ کچھ لکھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نعت گوئی کی سعادت پانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہر مذہب و ملت کے شعرا شامل ہوتے گئے اور ہو رہے ہیں۔ یہ اللہ ربّ العزت کے اعلان ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کا کھلا اظہار ہے:
آپ کا ذکر کبھی کم نہیں ہوگا آقا
آپ کے ذکر کو اللہ نے رفعت دی ہے
(راقم)
غالب بھی رند مشرب ہونے کے باوجود ایک مسلمان شاعر تھا، تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کا قلم کائناتِ انسانی کی سب سے بڑی ہستی کی توصیف و ثنا سے محروم رہتا۔ چناںچہ اس نے بھی توفیقِ ثنائے رسولa پائی۔ اردو میں کہیں کہیں چند ایک نعتیہ شعر اس کے قلم سے نکلے لیکن فارسی میں اس کا خاصا نعتیہ کلام سامنے آیا ہے جب کہ اس کی ایک نعت تو ادبِ عالیہ کا حصہ بن گئی ہے۔
نعت رنگ‘‘ کے گوشۂ غالب میں غالب کی نعتیہ شعری جہتوں پر چند عنوانات کے تحت مضامین لکھوائے گئے تھے جن میں غالب کی فکری رو میں مذہبی اساس کی تلاش اور غالب کے کلام میں نعتیہ عناصر کی نشان دہی جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ کلامِ غالب میں نعت کے فقدان پر بھی سنجیدہ بحث کی گئی اور غالب کے کلام سے ہٹ کر بھی اس کی زندگی، حالات و واقعات اور خطوط میں پائی جانے والی عظمتِ رسول عشقِ نبی، کریم کی روشنی کو بھی نمایاں کرنے کی سعی کی گئی۔ غالب نے اردو میں باقاعدہ نعت نہیں کہی لیکن عجیب بات ہے کہ اردو شعرا میں ایک رجحان غالب کی زمینوں میں نعت کہنے کا بھی پیدا ہوا جس میں ہند و پاک کے متعدد نامور شعرا نے حصہ لیا اور نعتیہ ادب کو مزید باثروت کیا۔ اس طرح کئی مجموعے صرف غالب کی زمینوں میں کہی گئی نعتوں کے منصہ شہود پر آگئے۔ اس گوشے میں شامل مضامین میں غالب کی اس خوش بختی کو اُجاگر کرتے ہوئے اس وقت تک شائع ہونے والے ایسے تمام مجموعوں کا ذکر بھی صراحت کے ساتھ پیش کیا گیا اور اس طرح غالب کی شعری اقدار پر حبِ نبی کریم کے حوالے سے ممکنہ حد تک سیرحاصل گفتگو کے ساتھ ساتھ غالب کی فنی عظمت کے نعتیہ ادب پر پڑنے والے اثرات بھی موضوعِ بحث بنے۔
نعت رنگ‘‘ کا گوشۂ غالب اس اعتبار سے بھی نہایت اہم ثابت ہوا کہ اس میں غالب کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے ادبا و شعرا اور ادبی رسائل کے ساتھ ساتھ بالخصوص غالب شناسوں کی بے اعتنائی کا بھی کسی حد تک ازالہ ہوا اور ایک ایسی جادہِ فکر روشن ہوئی جس پر آئندہ نو واردانِ ادب کو چلتے رہنے کی ترغیب ملتی رہے۔ ’’نعت رنگ‘‘ میں مذکورہ گوشے کے علاوہ بھی غالب کی نعتیہ شاعری پر چند مضامین شائع کیے گئے تھے یا پھر ایسے انفرادی مضامین بھی گاہے گاہے سامنے آتے رہے جن میں غالب کی نعتیہ شعری اقدار کا کوئی نہ کوئی حوالہ موجود تھا۔ اس لیے نعتیہ ادب سے شغف رکھنے والے اور غالب کی شعری عظمت کے دل سے معترف احباب کا اصرار تھا کہ ’’نعت رنگ‘‘ میں غالب کی جس نئی جہت کو دریافت کیا گیا ہے اور اس (غالب کی نعتیہ شاعری) حوالے سے ’’نعت رنگ‘‘ میں جو کچھ چھپا ہے اسے غالبیاتِ نعت رنگ کے عنوان سے علاحدہ کتابی شکل میں یک جا کردیا جائے تاکہ افادۂ عام کی صورت پیدا ہو۔ یوں تو اس خواہش کا اظہار کئی دوستوں نے کیا، لیکن ممتاز صحافی ضمیرنیازی مرحوم کا محبت بھرا تقاضا اور تاکید سب سے پہلے میرے پاس ’’نعت رنگ‘‘ کے ایک سرپرست اور کراچی کے ایک بڑے اشاعتی ادارے (فضلی سنز) کے مالک جناب طارق رحمٰن فضلی کی وساطت سے پہنچا۔ سو تاخیر سے سہی لیکن آج ان سارے دوستوں کی خواہشوں کے احترام میں ’’غالب اور ثنائے خواجہ‘‘ پیشِ خدمت ہے۔
کسی بھی علمی، تنقیدی اور تحقیقی کام کو احساسِ اوّلیت کے ساتھ پیش کرنے کا مطلب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ آئندہ ان بنیاد گزاروں کے جلائے ہوئے چراغوں سے دوسرے چراغ روشن کیے جاتے ہیں۔
غالب کا ایک شعر عجیب ہے جس سے کسی بھی بڑے موضوع کے امکانات پر سوچنے کے لیے حوصلہ ملتا ہے۔ چناںچہ میں بھی اپنی بات کو اسی پر ختم کرتا ہوں۔ نعت کا حق ادا کرنا کسی شاعر کے بس میں نہیں بقول کیف بدایونی مرحوم
ادا حق ثنا ان کا کسی سے ہو نہیں سکتا
خدا کا کام ہے یہ آدمی سے ہو نہیں سکتا
لیکن کوشش کرنے میں کچھ حرج نہیں کہ ذکر کی برکتیں اور سعادتیں تو ہر حال میں حاصل ہو ہی جاتی ہیں۔ اب غالب کا شعر دیکھیے:
گفتمش ذرہ بہ خورشید رسد، گفت محال
گفتمش، کوشش من در طلبش، گفت رواست
میں نے اُس سے پوچھا، کیا ذرّہ سورج تک پہنچ سکتا ہے، کہا ’’ناممکن‘‘۔ میں نے اُس سے کہا، اس مقام کے حصول کے لیے میری کوشش کیسی رہے گی، کہا وہ جائز ہے۔
چناںچہ باعثِ تخلیقِ کائنات کی توصیف و ثنا کا معاملہ اس خاکداں کے لیے ایک منفرد اور اہم شاعر کے حوالے سے زیرِبحث لانا، ہماری کوشش کی حد تک روا تھا، سو وہ ہم نے کر دیکھی۔
صبیح رحمانی