ادب کیا ہے

ادب کیا ہے

ادب کیا ہے

اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ ادب کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اگر میں آپ سے سوال کروں کہ زندگی کیا ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جواب بھی آپ دیں گے وہ جامع نہیں ہوگا۔ اس میں صرف وہ زاویہ ہو گا جس سے خود آپ نے زندگی کو دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہو جائے۔ یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے ، اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی زندگی کے اظہار کا نام ہے۔ ادب چونکہ لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبے احساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تعریف ہے جس میں کم و بیش ہروہ بات جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے اور جو منہ یا قلم سے نکلے، ادب کہلائے گی، لیکن میری طرح یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہر وہ بات جو منہ سے نکلتی ہے یا ہر وہ بات جو قلم سے ادا ہوتی ہے ، ادب نہیں ہے۔ عام طور پر اخبار کے کالم یا اداریے ادب نہیں کہلاتے حالانکہ ان میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور اثرو تاثیر کی قوت بھی ہوتی ہے ۔ ہم سب خط لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط ادب کے ذیل میں نہیں آتے لیکن اس کے بر خلاف غالب کے خطوط ادب کے ذیل میں آتے ہیں۔ غالب اور دوسے خطوط کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی تحریر کو ادب کہا جا سکتا ہے جس میں الفاظ اس ترتیب و تنظیم سے استعمال کئے گئے ہوں کہ پڑھنے والا اس تحریر سے لطف اندوز ہوا اور اس کے کے معنی سے مسرت حاصل کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب لفظ و معنی اس طور پر گھل مل گئے ہوں کہ ان میں رس پیدا ہو گیا ہو۔ یہی اس کسی تحریر کو ادب بناتا ہے۔ اس مسترت کا تعلق ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس احساس سے ہو گا جس کو اس تحریر میں پاکر ہم مسرت محسوس کر رہے ہیں اور ان معنی سے بھی ہو گا جس میں ادراک ہوا ہے۔ یہ تحریر ہوگی جس نے ہمارے شعور اور ہمارے تجربوں کے خزانے میں اضافہ کیا ہے اور ان دیکھے تجربات سے اس طرح مانو کر دیا ہے کہ وہ تجربے ہمارے اپنے تجربے بن گئے ہیں۔ یہ وہ تحریر ہوگی جس کا اثر وقتی اثر کا حامل نہیں ہوگا بلکہ اس میں ابدیت ہوگی اور جو زمان و مکان سے آزاد ہو کر آفاقیت کی حامل ہوگی۔ انہیں خصوصیات کی وجہ سے مثنوی مولانا روم، دیوان حافظ، کلام غالب اشعار میر تخلیقات شیکسپیئر  مکالماتِ افلاطون ہمیں آج بھی متاثر کرتے ہیں اور ہمارے تجربات و شعور میں احساسِ مسرت کے ساتھ اضافہ کرتے ہیں جس تحریر میں بیک وقت یہ سب خصوصیات موجود ہوں گی وہ تحریر ادب کہلائے گی اور یہ خصوصیات جتنی زیادہ ہوں گی وہ تحریری اعتبار سے عظیم ادب کے ذیل میں آئے گی ۔ ادب کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ادب زندگی میں کسی چیز کا بدل نہیں ہے اور اگر اس کی حیثیت کسی اور چیز کے بدل کی ہے تو پھر وہ ادب نہیں ہے۔ ادب ایسا اظہار ہے جو زندگی کا شعور و ادراک حاصل کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ادب میں انسان کے تخیلی تجربے کو ابھارنے کی ایسی زبر دست قوت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اس تجربے کا ادراک کر لیتا ہے ۔ ادب میں متحرک کرنے اور ہماری روح میں موجود خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ یہ ادب کا خاص منصب ہے۔ ادیب ایک ایسا انسان ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔ اس کے ادراک و اظہار میں اتنی داخلی و خارجی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوتے بھی آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا ادیب ہو گا اس کے تجربے کا تنوع ، اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہو گا۔ ادب کے ذریعے، جیسا کہ میں نے کہا ہے ، ہم دوسروں کے تجربوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لیے ادب کی سطح پر ہم اپنی ذات سے بلند ہو جاتے ہیں۔ ادب عمل ادراک کی غیر معمولی قوت کے ذریعے ہماری عام مستی کو بیدار کر کے شعور کی ایسی سطح پر لے آتا ہے جو اس کے بغیر خفتہ رہتی ۔ اگر ادب نہ ہوتا اور سعدی، میر، غالب، اقبال، حافظ، شکسپیر گوئٹے، دانتے وغیرہ نہ ہوتے تو انسان آج بھی معصوم بچے کی طرح ہوتا۔ ادب کے ذریعے ہی ہم بلوغت کے درجے پر آتے ہیں۔ زندگی بسر کرتے ہوئے ہم پر بہت سے جذبے گزرتے ہیں، بہت سے ادھورے معنی ہمارے ذہن میں ابھرتے ، نامعلوم احساس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، ہم میں بغاوت کا میلان پیدا ہوتا ہے لیکن یہ سب ہمارے لیے گونگے اور بے نام ہوتے ہیں اور یونہی گزر جاتے ہیں لیکن جب ان سے ہمارا واسطہ ناول، افسانے، شاعری ، ڈرامے یا مضمون میں لفظوں کی حسین، پررس اور جاندار ترتیب و تنظیم کے ساتھ پڑھتا ہے تو ہم ان کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں اور یہ جذبے، یہ حساس یہ میلان، یہ تجربے ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح ہم زندگی میں نئے معنی تلاش کر لیتے ہیں۔ ادب زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کا نام ہے اور اسی لیے ادب زندگی کے شعور کا نام ہے۔ اسی شعور کے ذریعے ہم بدلتے ہیں ہم وہ نہیں رہتے جو اس وقت ہیں اور اسی سے ہمارے اندر قوت عمل پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے ایسے تجربے جن سے ہمیں کبھی واسطہ نہیں پڑا ، ادب کے ذریعے براہ راست ہمارے تجربے بن جاتے ہیں اور ہمیں اور ہمارے انداز فکر کو بدل دیتے ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ادب کے ذریعے ہم دوسروں کے تجربوں میں اس طور پر شریک ہو جاتے ہیں کہ وہ ہمارے تجربے بن جاتے ہیں تو شاید یہ بات آپ کو میرا سرارسی معلوم ہو لیکن اسے ایک انتہائی مثال سے یوں سمجھتے کہ اپنی محبوبہ کو رقابت یا حسد کی شدت کے زیر اثر قتل کرنے کا تجربہ ہمارے لیے حاصل کرنا آسان نہیں ہے لیکن شیکسپیئر کے اوتھیلو کے ساتھ شریک ہو کہ یہ تجربہ ہمارا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح لیڈی میکتور کا تجربہ میرا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ فاؤسٹ کو پڑھ کر گوئٹے کے، اور اینا کرینا، پڑھ کر ٹالسٹائی کے تجربات میرے تجربات بن جاتے ہیں۔ مولاناروم کی مثنوی اور گلستان و بوستان کے تجربے میرے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ ادب کا یہی کام ہے۔

اب آپ یہاں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آخر کیا ہم ان تجربات کا ادراک کیے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یقینا گزار سکتے ہیں لیکن یہ زندگی حیوانی سطح پر سر ہوگی۔ اگر ہم زندگی کو صرف اپنے تجربات تک محدود کر لیں تو زندگی اندھا کنواں بن کر رہ جائے اور عین ممکن ہے کہ ہمارے تجربات کوئی خطر ناک صورت اختیار کر لیں اور ہمارے اندر ایک ایسا عدم توازن پیدا ہو جائے جو زندگی کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے مثبت راستے سے ہٹا دے ۔ ادب کے ذریعے جب دوسروں کے بے شمار چھوٹے بڑے تجربے ہمارے شعور و ادراک کا حصہ بنتے ہیں تو نہ صرف ہمارا تزکیہ کیتھارسس ہو جاتا ہے بلکہ اس سے زندگی کا توازن بھی درست رہتا ہے عام تجربہ گونگا ہوتا ہے۔ ادیب اسے زبان دے کر نہ صرف ہمیں اس کا ادراک کرا دیتا ہے بلکہ ہمارے باطن کو بھی روشن کر دیتا ہے۔ ہم نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ یہ بات حقیقت نہیں محض شاعری یا افسانہ ہے۔ کہنے والا جب یہ بات کہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ شاعری و افسانہ در اصل جھوٹ ہوتے ہیں لیکن انہیں اگر تجربے کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس بظاہر جھوٹ میں انسانی تجربے کی وہ سچائی چھپی ہوئی ہوتی ہے جو ہمیں نیا شعور عطا کرتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایسا جھوٹ ہے جو ہمیں سچائی کا نیا شعور عطا کرتا ہے اور اور اسی لیے جب تک انسان اور انسانی معاشرہ زندہ و باقی ہے ہمیں ہوا کی طرح ادب کی ضرورت بھی ہمیشہ باقی رہے گی۔ ادب آزادی کی روح کا اظہار ہے۔ ادب سچائی کی تلاش کا مؤثر ذریعہ ہے، لفظ چونکہ ہر دوسرے میڈیم سے زیادہ طاقتور چیز ہے اسی لیے ادب دوسرے فنون لطیفہ سے زیادہ مؤثر چیز ہے۔ آج کی جدید زندگی میں سائنس پر غیر معمولی زور ہے۔ سائنس نے اشیاء کو ہمارے شعور میں تو داخل کر دیا ہے لیکن فکر و احساس کو زندگی سے نکال باہر کیا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت ساری دنیا ایک ہولناک عدم توازن کا شکار ہے۔ زندگی ساری ترقیوں اور حیرت ناک ایجادات و انکشافات کے باوجود معنویت و توازن سے عاری ہوگئی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا اس وقت ایک ایسے نظام خیال اور تصور حقیقت کی تلاش میں ہے جس سے انسان اپنے وجود کو با معنی بنا سکے۔ یہ کام ادب کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ ادب ایک طرف ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے، احساس جمال سے لطف اندوز کرتا ہے دوسروں کے تجربات سے ہمارا تزکیہ کیتھارسس کرتا ہے اور دوسری طرف لفظوں کی جمالیاتی ترتیب سے احساس، جذبے یا خیال کو غیر ضروری عناصر سے پاک کر کے اس طور پر سامنے لاتا ہے کہ ہم بھی اُسے پڑھتے ہوئے غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ادب جن دنیاؤں میں ہمیں لے جاتا ہے وہ حقیقی دنیا سے زیادہ حقیقی ہوتی ہیں۔ پروست نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لے آئے اور اس طرح ہمیں خود ہم سے واقف کرادے۔ غالب ، سرسید حالی اور اقبال نے اپنی تحریروں سے ہمیں خود ہم سے واقف کرا کر اس طور پر بدلا ہے کہ ہم نے گویا نیا جنم لیا ہے۔ ادب یہی کام کرتا ہے اور یہی اس کا منصب ہے۔ اس ساری بحث کو سامنے رکھ کر جب ہم خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر ادب کیا ہے، پوچھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی تو ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اُس چور سے آمنا سامنا ہوتا ہے جو سائنس کے زیر اثر ادب میں خالص افادیت کی تلاش پر اکسا رہا ہے۔ یہ سوال ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری چھٹی ہوئی خواہش اب یہ ہے کہ آج ادب بھی وہی کام کرے جو ائر کنڈیشنر کرتا ہے، جو پانی کو ٹھنڈا کر کے ریفریجریٹر کرتا ہے یا جو ہمارے بھیجیا کپڑوں کی شکنیں، سلوٹیں دور کر کے استری کرتی ہے اور چونکہ ادب ہماری اس خواہش کو پورا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ اس کا منصب نہیں ہے تو ہم زندگی میں ادب کی بنیادی اہمیت سے منکر ہو جاتے ہیں ادب کا کام دراصل وہ ہے ہی نہیں جس کی آپ اس سے توقع کر رہے ہیں۔ ادب کا کام تو زندگی میں معنی تلاش کرنا ہے اور ان کا رشتہ مانی سے قائم کر کے مستقبل سے جوڑ دینا ہے۔ ادب کا حوالہ تو خود زندگی ہے اور وہ اُسے ہی آگے بڑھاتا ہے۔ ادب تو انسانی تجربے کے مکمل علم و آگاہی کا نام ہے اور یہ علم وآگاہی دہ غیر معمولی مرتب منتظم صلاحیت ہے جس کے اظہار کی صلاحیت صرف باشعور و دردمند انسان کے پاس ہے۔ وہ انسان جو نہ صرف اس کے اظہار پر قدرت رکھتا ہے بلکہ جس کا اظہار سچا بھی ہے اور حسین بھی مکمل بھی ہے اور موثر و مثبت بھی۔ اسی لیے ادب تنقید حیات ہے اور زندگی کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا نام ہے ۔

(۶۱۹۷۹)

ادب کا منصب

اگر ادب کا منصب یہ ہے کہ وہ اپنے دور کے مزاج اور اس کی روح کا اظہار کرے تو اس اعتبار سے ہم نے ادب تخلیق کرنے سے زیادہ پرچہ نویسی کی ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ اپنی تحریروں کے ذریعے اپنے آپ کو دہرایا ہے یا پھر تخلیقی تجربات کو چھوڑ کر جھوٹے جذبات اور مصنوعی تجربات پر اپنے نام نہاد ادب کی بنیاد رکھی ہے اور جب ایسے میں بات نہیں بنتی اور تمہیں اپنے اندر کے انسان سے وہ اطمینان اور آسودگی میسر نہیں آتی تو ہم ادب کو کوسنے کاٹنے لگتے ہیں۔ معاشرے کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں اور اس طعن تشنیع سے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ ہمارا ادب اور ہمارا فن اپنے دور کی ترجمانی کرنے کے بجائے صرف مایوس ہونے پر اکتفا کر رہا ہے۔ ادب سے مایوسی، معاشرے سے مایوسی، اور پھر اپنی ذات سے مایوسی، چلیے اگر تھوڑی دیر کو یہ بھی مان لیا جائے کہ مایوسی بھی ایسی کوئی بری بات نہیں ہے پھر بھی ہمارے ادب کا مسئلہ حل نہیں ہوتا ہمارے ادیب کم از کم یہ تو کر ہی سکتے تھے کہ وہ اس انتشار ، بحران اور مایوسی کے تجربات کا سچائی کے ساتھ اظہار کر دیتے۔ حالانکہ اب زمانہ تو وہ آگیا ہے کہ ادیب کو مفکر کا کام اپنے ذمے لے لینا ہے نہ کہ صرف تماشائی بن کر تماشے کے طور پر ان حالات کو دیکھے اور گزر جائے۔ ادب، اور ہم تو یہی سجھتے ہیں کہ موت کا نہیں زندگی کے اظہار کا نام ہے، اگر زندگی کی دیواریں گری ہوں پھر بھی ادیب کا کام صرف مایوس ہو کر ناک بھوں چڑھا کر الٹی سیدھی بات کہہ دینے کا نہیں ہے ہمارا خیال تو یہ ہے اور آپ بھی اس سے ضرور اتفاق کریں گے کہ زندگی کو سہارا دینا، اسے بنانا سنوارنا ، اسے نیا شعور اور نیا طرز احساس دینا اور اسے نئے انداز سے مرتب کرنا ادب کا کام ہے بحران اور انتشار کا تجربہ کرنا ، اسے اپنے اندر اتار کر اپنے احساس و شعور کا ایک حصہ بنا لینا ایک بات ہے لیکن اس سے مغلوب ہو جانا اور پھر جھلا کر کوسنا کاٹنا ایک اور بات ہے اور سچا ادیب کبھی یہ نہیں کرتا کیا ہماری موجودہ تحریریں ہمارے کھوکھلے پن کو ظاہر نہیں کر ہی ہیں؟ ممکن ہے ایسے میں اس کا جواب یہ دیا جائے کہ صاحب چونکہ سارے معاشرے اور اس کی اقدار میں کھوکھلا پن ہے اس لئے ہماری تحریریں بھی کھوکھلی ہیں لیکن یہاں اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریروں کا کھوکھلا پن الگ چیز ہے اور معاشرے کے کھوکھلے پن کا تجربہ اور اس کا اظہار ایک الگ چیز ہے۔ اگر ہماری تحریروں میں مؤخر الذکر بات بھی ہوتی تو ہم جھک کر سلام کرتے اور آپ یقین مانیں کہ ہم انہیں کھوکھلا ہرگز نہ کہتے۔ اس بات کو ہم ایک مثال سے واضح کریں گے، سرلئسٹ تصویریں فن کے اعتبار سے اکثر بے معنی اور بے کار نظر آتی ہیں لیکن وہ کچھ بھی ہوں کم از کم انہوں نے ایٹم کی وحشتناک تباہی اور دوران جنگ کی قتل و غارت گری کا بھر پور اظہار کر کے اپنے دور کے تجربات کو پیش کر دیا ہے اور آج ہم ان تصویروں کو دیکھ کر اس گھناؤنے پن کو محسوس کر لیتے ہیں جس سے اس زمانہ کا انسان دو چار تھا۔ یہ کام نہ کوئی ریڈیو کر سکا اور نہ اخبار. فن کے اظہار کے ذریعے ایک طرف تو اس دور کا مزاج اور اس کی روح محفوظ ہو گئے اور دوسری طرف اس اظہار کے ذریعے ایک نیا شعور اور نیا طرز احساس پیدا ہوگیا۔ ذرا غور کیجئے کہ کیا ہمارے ادب نے اس سلسلے میں کوئی اقدام کیا ہے ؟ کیا ہمارے ادب کا موجودہ رجحان جس کا ذکر ہم نے اوپر کی سطروں میں کیا ہے ، کسی طرح بھی قابل قبول یا قابل تعریف کہا جا سکتا ہے ؟ دوزخ بہت بڑی چیز ہے لیکن اس کا تجربہ کیے بغیر ہم جنت بھی تو حاصل نہیں کر سکتے۔ ہاں یہ بات دوسری ہے کہ فردوس بریں میں جگہ عطا فرمائے جانے کے لئے دعائیں ضرور کرائی جا سکتی ہیں۔

ہمارے ہاں ایک طرف تو وہ ادیب ہیں جنہیں ہم سہولت کے لئے ہر کاروں کا نام دے سکتے ہیں جو اس بات سے بے خبر ہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور دنیا کس طرف جا رہی ہے۔ یہ بے مغز مورکھ ادیب اپنی بے خبری میں مگن ہیں اور زیادہ سے زیادہ خط باٹنے کا کام کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف وہ ادیب ہیں جنہیں ہم سادھو اور رشی منی قسم کے ادیب کہہ سکتے ہیں اور جو اپنی کاوشوں میں تارک الدنیا ہوئے یا گوشہ نشینی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ بھی زندگی سے اتنے ہی دور میں جتنے وہ ادیب جنہیں ہم ہر کاروں کے نام سے موسوم کر چکے ہیں۔ اگر ہمیں اردو ادب میں کسی نئے طرز احساس کو پیش کرنا ہے تو ہمیں نہ صرف ان دونوں قسم کے ادیبوں کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے بلکہ اس بات سے بھی باخبر رہنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ اردو ادب کو ایسے ادیبوں کی ضرورت ہے جو اپنے تجربات سے سچائی کے ساتھ آنکھیں ملانے کی سکت رکھتے ہوں جو اس مشینی دور کی لعنتوں اور برکتوں دونوں سے واقف ہوں اور مشین کو اپنے شعور و احساس میں اتار کر اس کے گھناؤنے ان کو محسوس کرنے، اور محسوس کرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ جو معاصر زندگی کے طوفانی دھاروں اور خوشگوار ہلکی پھوا دونوں سے باخبر ہوں ۔ انہی تجربات کے اظہار سے ہم زندگی کو ایک نئی قوت آغاز دے سکتے ہیں۔ 

آج کے ادیب کو شاید اس بات کا بھی تجربہ ہو کہ پوری زندگی مجہولیت کی طرف جا رہی ہے اور اس کا اندازہ صرف اسی سے کیا جا سکتا ہے کہ آج کا انسان پھر شخصیت پرست ہو گیا ہے اور ہم نے ایک شخصیت کے اندر اپنے سارے مسائل، اپنی ساری خواہشات کا حل دیکھنا شروع کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس طرح ایک شخص کو حقیقی شخص بنا کر باقی ساری انسانیت کو غیر حقیقی بنا دیا ہے یہی ایک ایسا شخص ہے جو اپنے اندر کی گہرائیوں اور محرکات کی تعمیل کر سکتا ہے یہی وہ شخص ہے جو بھیڑ کو جھنجھوڑ سکتا ہے۔ اور جو قاعدہ قانون سے روگردانی کر سکتا ہے جو آزادی کے ساتھ بول سکتا ہے۔ اور دوسری طرف یہ ہو رہا ہے کہ غیر حقیقی فریب زدہ بھیڑ نے، جسے عوام کے محترم نام سے موسوم کیا جاتا ہے، اپنے سارے احساسات و جذبات ، اپنی ساری صلاحیت غور و فکر اس ایک شخص کے حوالے کر کے خود دروازے بند کر لئے ہیں اور ان میں قفل ڈال دیا ہے۔ یہ جدید تہذیب کا وہ پہلو ہے جسے ہم رجعت پسندی کہہ سکتے ہیں اور رجعت پسندی کسی بھی دور اور کسی بھی زمانہ میں قابل تعریف نہیں ہوسکتی۔ ادیب سے اس بات کی امید تھی کہ وہ مشینی دور کے اس پہلو کو بھی محسوس کرے گا اور خوف زدہ مجہول انسان کے مسائل پر غور کرے گا اور انسان کو پھر سے اس مرکز میں لاکھڑا کرے گا جہاں اب مشین کھڑی ہے۔ انسان ہمارا ہیرو رہے۔ ہم نے انسان ہی کو اپنی تہذیب سے خارج کر دیا ہے۔ اسے دوبارہ مرکزی حیثیت دینا ادب کا سب بڑا موضوع ہے لیکن اس موضوع کی اہمیت کو ہم اس وقت تک محسوس نہیں کر سکتے جب تک ہم خود اپنے ذہنی افق کو نئے علوم سے وسیع تر نہ کر لیں ۔ ویسے یہ بات کہنے کی نہیں ہے اس لئے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ بے خبری تخلیق کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

ادب اور ٹیکنولوجی

ہر آدمی کی طرح ہر زمانے کا بھی ایک شیطان ہوتا ہے۔ لوگ اپنے زمانے کی ساری برائیاں اس کے سر منڈھ دیتے ہیں اور اپنے ضمیر کو یہ سوچ کر مطمئن کر لیتے ہیں کہ اگر یہ شیطان موجود نہ ہوتا تو ان کی زندگی جنت ہوتی ہمارے زمانے کا شیطان " ٹیکنالوجی" ہے۔ اگر ہماری اخلاقی اقدار زوال پذیر ہیں، اگر ہماری معاشرتی و تہذیبی روایات ٹوٹ رہی ہیں۔ اگر ہمارے طرز عمل اور رویے بدل رہے ہیں تو ہم ان سب چیزوں کی ذمہ داری ٹیکنولوجی کے سر تھوپ دیتے ہیں یہی صورت حال ادب کے ساتھ ہے۔ آپ کسی ادیب سے بات کیجئے تو وہ ادب کے زوال اور انحطاط کا ذمہ دارٹیکنالوجی کو ٹھہرائے گا کیا یہ شیطان واقعی اس توڑ پھوڑ اور زوال و انحطاط کا ذمہ دار ہے؟ سوال یہ ہے کہ خود ادب کا ٹیکنالوجی سے کیا تعلق ہے؟ ٹیکنالوجی کی ترقی سے ادب کیوں ختم ہو رہا ہے۔ انسان کو ادب کی زیادہ ضرورت ہے یا ٹیکنالوجی کی؟ معاشرہ ادب کے بغیر بھی ترقی کرسکتاہے بلکہ کر رہا ہے اور تسخیر کائنات نات میں مصروف ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اب معاشرے کو سرے سے ادب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی ہے۔ اسی لئے آج کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ادب کی ماہیت، نوعیت، ضرورت، اہمیت اور زندگی سے اس کے تعلق پر از سرِ نو غور کیا جائے بندر کی بلا طویلے کے سر، ہم اپنے فرضی شیطان کو کب تک مطعون کر کے حقیقت سے آنکھیں چراتے رہیں گے۔

ذرا غور کیجئے تو ٹیکنالوجی جی کا ادب سے براہ راست کوئی تصادم نہیں ہے کیوں کہ دونوں کی ماہیت ، تقاضے اور محرکات مختلف ہیں۔ ادب کا تعلق انسانی ذہن سے ہے جب کہ ٹیکنولوجی انسانی اعضا کی توسیع ہے مثلاً ٹیلی فون اور ریڈیو ہمارے کانوں کی توسیع ہیں۔ دور بین اور ٹیلی وژن ہماری آنکھوں کی توسیع ہیں، کاریں، ریل گاڑی ،جہاز اور طیارے ہمارے پیروں کی توسیع ہیں. ٹیکنالوجی کی حیثیت و حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اس نے انسانی اعضاء کی محدود قوتوں کو بڑھا کر اس کی کارکردگی میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے برعکس ادب کا انسانی جذبات، محسوسات، تخیل اور احساس جمال سے تعلق ہے اور جسمانی ضروریات کے بجائے انسان کے اندر کی، باطن کی اس کی روح کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ اس صورت میں ادب اور ٹیکنالوجی کا تصادم ایک افسانے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ادب زوال پذیر ہے کسمپرسی کا شکار ہے۔ چاہیں تو کہہ لیجئے کہ مر رہا ہے صرف ہمارے ہاں نہیں بلکہ ساری دنیا میں لیکن اس کی موت کی ذمہ دار ٹیکنالوجی تو نہیں ہے۔ وہ تو ادب کو نہیں مار رہی ہے بلکہ سچ پوچھیے تو ادب کو فروغ دینے میں ہاتھ بٹا رہی ہیں ۔ یہ ٹیکنالوجی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہر سال کروڑوں کتابیں اور رسائل شائع ہوتے ہیں اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں ایسے پہنچتے ہیں کہ جیسے ہمارے اپنے شہر میں چھپ کر شائع ہوتے ہوں، دنیا کے دور دراز گوشوں کی خبریں پل بھر میں ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہیں۔ ہم پاکستان جیسے پس ماندہ ملک میں بیٹھ کر دنیا بھر کے فکر و فلسفہ کی بات کرتے ہیں نئی تصانیف اور شعر و ادب میں کئے جانے والے نئے تجربات پر بحث کرتے ہیں۔ دنیا میں ادب کی اشاعت اتنی زیادہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی جتنی ہمارے زمانے میں ہو رہی ہے۔ ادب کے پڑھنے والے بھی ہمارے زمانے سے زیادہ کسی زمانے میں نہیں ہوئے لیکن ان سب باتوں کے باوجود اگر ادب زوال پذیر ہے اور انحطاط کا شکار ہے تو ہمیں اس کے حقیقی اسباب دریافت کرنے چاہیں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی" " ادب " سے کچھ نہیں کہتی، کہیں ایسا تو نہیں کہ سوڈو مفکروں نے ٹیکنالوجی اور ادب و فکر کے حدود آپس میں ملا کر گزشتہ سو سال کے اندر ہماری فکر میں فساد پیدا کر دیا ہو. سائنس، جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے ، مادے اور مادے کے خواص کا علم ہے۔ نہ وہ اس سے زیادہ کا دعویٰ کرتا ہے اور نہ اس سے آگے جاتا ہے لیکن سوڈو مفکروں نے اپنے مخصوص مقاصد کوسامنے رکھ کر جو فکر پیش کی اس نے ایسی گڑ بڑ پیدا کی اور ایسے نتائج اخذ کئے جو سائنس دان کے نتائج ہر گز نہیں تھے۔ اس لئے بغیر سوچے سمجھے سارا الزام ٹیکنالوجی کے سر تھوپ دینا کسی طرح بھی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ ادیب، مفکر دانش ور کی حیثیت سے اس وقت ہمارا فرض ہے کہ ہم اس مسئلہ پر غور کریں، اس کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے دور میں حقیقی فساد کہاں ہے اور یہ کن وجوہ کی بناء پر پیدا ہوا ہے، اسی راستے سے ہم اصل حقیقت تک پہنچ سکتے ہیں۔ ادب کو سائنس کی سوکن بنا کر، وجہ بے وجہ ٹیکنالوجی کو کوسنے کاٹنے سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا سوکن والے رویے سے نہ کبھی کوئی مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ اب حل ہو سکتا ہے ۔ آئیے ہم سب مل کر اس مسئلہ پر غور کریں۔

( ۶۱۹۷۷ )

ہنگامی ادب

ہم جس دور میں پیدا ہوئے اور پلے بڑے وہ حسن اتفاق سے تاریخ کا ایسا دور ہے جس میں ہر طرف بحران ہی بحران ہے جنگ مسلسل ہمارا تعاقب کر رہی ہے۔ پرانے خیالات اور اقدار ابھی سسک رہے ہیں نئے پیدا نہیں ہوئے ہیں یا اتنے ننھے منے ہیں کہ ان کی اہمیت متعین نہیں کی جاسکتی۔ دنیا اس تیزی سے بار بار پلٹا کھا رہی ہے کہ فکر کی راہیں دھندلا گئی ہیں۔ نہ کچھ سجھائی دیتا ہے نہ دکھائی دیتا ہے۔ اس اندھیرے میں نہ ساری باتیں سمجھ میں آتی ہیں سنی جاتی ہیں پھر اس پر ہم اس کا رونا بھی روتے ہیں کہ ادب کی اہمیت معاشرے میں مسلم نہیں رہی ہے۔ اگر ذرا دیر کو اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم نے ادیب کی حیثیت سے کیا کیا ہے ہم نے اس بات کو کہاں تک سمجھا ہے کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے سماج کس طرف جا رہا ہے اور سماج میں پیدا ہونے والے نئے نئے واقعات کا ہماری زندگی پر اجتماعی و انفرادی حیثیت سے کیا اثر پڑ رہا ہے۔ ہم معاشرہ کو کچھ ہمیں گے تو معاشرہ اس کے عوض میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ ضرورے گا۔ شہرت بھی اور جاہ مال بھی ! اب تو کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ ادب کا رشتہ عام زندگی سے منقطع سا ہو کر رہ گیا ہے۔ ادیب اپنے خول میں بیٹھ گئے ہیں اور ایک مینار سا اپنے ارد گرد کھڑا کر لیا ہے جہاں دھوپ اور روشنی بھی ٹھیک طور پر نہیں پہنچ پاتی پورا معاشرہ زخموں سے سڑ رہا ہے ہم اُس کے بارے میں نہ کچھ سوچتے ہیں اور نہ اسے قابل التفات سمجھتے ہیں۔ انہی موضوعات پر قلم اٹھا رہے ہیں جن پر ہمارے اسلاف لکھتے چلے آتے تھے بس ذرا اسلوب اور کہنے کے انداز کو بنا سنوار لیتے ہیں اور پھر اللہ اللہ اور خیر سلا۔ ہم میں تو اب نہ زندگی کی حرارت رہی اور نہ نئی منزلوں کو سر کرنے کا حوصلہ رہا ہے، عوام میں جو کچھ توانائی پیدا ہوتی ہے اسے ہم اپنی دل آزاری سے ضائع کر دیتے ہیں ان سب باتوں کے پیش نظر اگر دیکھا جائے تو اس وقت ہمارے ادب اور معاشرہ کو ہنگامی ادب (topical literature) کی ضرورت ہے جس میں اپنے مسائل کو سکھایا جائے، اچھے انداز میں اور نئے پن کے ساتھ۔ تاکہ عام پڑھنے والا بھی ان خیالات کو جو آپ سماج میں مروج کر کے اسے ایک راستہ پر ڈالنا چاہتے ہیں، پڑھ کر آپ کی رائے سے اتفاق کر کے اسی طرح سوچنے لگے جس طرح آپ نے سوچا ہے ، اب محراب و منبر سے نیچے اتر کر معاشرہ اور عوام میں گھل مل کر ان کو دیکھنا ہے ورنہ معاشرہ میں ادب ڈھونگ ہی ڈھونگ ہے گا اوڑھنا بچھونا نہیں بن سکتا محض لکھنے کی خاطر لکھنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر فخر کیا جائے۔ ادیب معاشرے کا سب سے ذمہ دار شخص ہوتا ہے۔ گوئی محسوس کرے یا نہ کرے لیکن ادیب ہر لمحہ کو، ہر واقعہ کو صحیح پس منظر میں سب سے پہلے سمجھے لینے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانا اور روشنی دکھانا اس کا فرض ہو جاتا ہے۔ ژاں پا سارتر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اگر ادیب لکھتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ فرض سنبھال لیا ہے کہ اس دنیا میں جہاں آزادی کو ہر دم کھٹکا لگارہتا ہے۔ آزادی کے نام کو آزادی سے مخاطب ہونے کی سرگرمی کو جاوداں بنا دیا جائے جو ادیب یہ پہلو اختیار نہیں کرتا وہ مجرم ہے اور مجرم ہی نہیں وہ پھر ادیب بھی باقی نہیں رہتا ل. ہم بیک وقت شہری بھی ہیں اور ادیب بھی ہمارے ارد گرد ہونے والے واقعات، سیاسی و سماجی رجحانات، قومی اور بین الاقوامی مسائل کو اپنے طریقہ پر سلجھانا بھی تو ہمارا ہی کام ہے۔ آخر صرف اخبار نویس تو اس بات کو حسن خوبی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتے۔ ہمارے ناولوں ، انسانوں اور ڈراموں کے ہیرو اور کردار یہ کام انجام دے سکتے ہیں. کسی واقعہ سے پہلے ہم ایک شہری کی حیثیت سے متاثر ہوتے ہیں ، ادیب کی حیثیت سے متاثر ہونے کے بعد ہم غور کرتے ہیں، اس سے نتائج اخذ کرتے ہیں، اور پھر اپنے اپنے طریقے پر ان حقائق کی تشریح کرتے ہیں، اور پھر جب یہ اقعات ایسے ہوں کہ ان سے آزادی میں خلل آرہا ہو، جماعتی استحصال زور پکڑ رہا ہو، معاشرہ زوال کی طرف جارہا ہوا اور پھر یہ باتیں ہمارے شعور کا ایک جز بھی بن چکی ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ شہری"میں"  ادیب کیسے نہیں جاگتا، لالٹین کتنی ہی خوب صورت اور خوشنما کیوں نہ ہو اس سے روشنی بھی تو ضرور نکلنی چاہیے اور یہ روشنی صرف (Topical Literature)  کے ذریعے پیدا ہو سکتی ہے۔ ناول ، کہانی، اور ڈرامہ میں اسے اپنانے کی پوری پوری صلاحیتیں موجود ہیں ۔

( ۶۱۹۵۶)

ادب اور قاری کارشتہ

یہ دوسری جنگ عظیم کی بات ہے کہ نازیوں نے فرانس پر قبضہ کرلیا اور بہت سے فراہمی دانشور اور ادیبوں کو گرفتار کر لیا۔ یہ وہ دانشور اور ادیب تھے جو نازیوں کے قبضے کے خلاف مزاحمت کی تحریک چلا رہے تھے۔ نازیوں نے طے کیا کہ ان گرفتار شدہ دانشوروں کے لیے خاص قسم کے پروگرام نشر کے جائیں تاکہ وہ ذہنی کرب اور مایوسی کا شکار ہوکر مزاحمت سے دست بردار ہو جائیں ۔ ایسے پروگرام جن سے ان کے خیالات کی بے معنویت کا مذاق بھی اڑایا جائے۔ یہ خاص پروگرام ان قیدیوں کے لیے نشر کئے جاتے اور انھیں سنائے جاتے، صورت یہ تھی کہ وہ پروگرام بن تو سکتے تھے لیکن کہہ کچھ نہیں سکتے تھے۔ وہ صاحب جو یہ پروگرام لکھتے اور نشر کرتے تھے ، وہ اس بات سے بے خبر تھے کہ سننے والے کیا سوچ رہے ہیں اور ان کا کیا رد عمل ہے اور اس کی تحریروں اور نشریات کا ان پر کیا اثر ہو رہا ہے۔ صورت حال یہ تھی کہ لکھنے والے اور سننے والے کے درمیان کوئی رشتہ قائم نہیں ہو سکا تھا۔ لکھنے والے کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ کس کے لیے لکھ رہا ہے اور کیوں لکھ رہا ہے لیکن وہ سننے والوں کی رائے ، تاثرات اور رد عمل سے بے خبر تھا۔ اس بات کا اثر یہ ہوا کہ کچھ عرصے تک تو وہ یہ پروگرام لکھتا رہا لیکن جلد ہی اس نے محسوس کیا کہ اس کا قلم سوکھ رہا ہے اور لکھنے کی عمر کم ہوتی جارہی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں لکھنے کی کوشش کے باوجود وہ نہ لکھ سکا۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ آخروہ لکھنے سے کیوں قاصر ہے تو اس نے جواب دیا کہ سامعین سے رشتہ قائم نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ذہن بے معنویت کا شکار ہو گیا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ لکھنے کا عمل بے کار ہے۔ 

یہ واقعہ جو میں نے بھی پیش کیا اس سے یہ بات یقیناً واضح ہو جاتی ہے کہ لکھنے کا عمل بذات خود دو طرفہ عمل ہے۔ لکھنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ کیوں لکھ رہا ہے؟ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس کے لیے لکھ رہا ہے؟ اس کے قاری کون ہیں اور وہ اس کی تحریروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور کیسے رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ادب اور قاری کے درمیان یہ رشتہ اگر قائم ہو جائے تو لکھنے والا اعتماد اور قوت کے ساتھ لکھتا رہتا ہے۔ اس کا قلم تازہ دم رہتا ہے اور قاری کے رد عمل سے پیدا ہونے والا تخیل، فکر اور احساس اس کی تحریر کو ایک نئی وسعت اور گہرائی عطا کرتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ سرشار نے برسوں تک قسط وار "فسانۂ آزاد" لکھا جس کی چار بہت ضخیم جلدیں شائع ہوئیں، تو اس سارے تخلیقی عمل میں پڑھنے والے برابر کے شریک تھے۔ اس رد عمل سے جو قاری اپنے خطوط یا گفتگو سے بہم پہنچاتے تھے، سرشار کی تخلیقی قوت ثابت و سالم رہی اور اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود "فسانۂ آزاد" اردو ادب کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اگر "فسانۂ آزاد" کے مشہور کردار "آزاد" اور "خوجی" کا مطالعہ کیا جائے اور ان کے ارتقاء کو بغور دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کرداروں کی تخلیق میں فسانہ آزاد کے بے شمار پڑھنے والوں کی خواہشات اور ان کے تخیل کی پرواز شامل تھی۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی ادب کے بڑے دور وجود میں آئے تو سماجی قوتوں اور تہذیبی عوامل کے ساتھ ساتھ ادب پڑھنے اور اس میں گہری دلچسپی لینے والے قارئین ہمیشہ شریک رہے ہیں۔ اگر لکھنے والے کو یہ احساس ہو جائے کہ اس کی تحریر پڑھنے والے موجود نہیں ہیں تو لکھنے کا عمل کمزور پڑ کر بند ہوجائے گا۔ غالب اپنے دور میں مشکل گو شاعر تھے اور ان کا کلام استاد ذوق کے مقابلے میں مقبول نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ان کے اپنے دور میں ان کی شاعری کو سننے، پڑھنے، اور پسند کرنے والوں کا ایک حلقہ ضرور موجود تھا جس سے حضرت غالب کا گہرا اور براہ راست رشتہ قائم تھا۔ اس رشتے کے بغیر جیسا کہ آپ نے اب محسوس کیا ہو گا ، ادب کی تخلیق کمزور پڑ جاتی ہے ۔

ہمارے دور میں جو اس وقت تخلیقی ادب پر پوری بہار نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ادیب اور قاری کے درمیان وہ گہرا اور براہ راست رشتہ اس طرح قائم نہیں ہے جس طرح قائم ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ جہاں یہ ہے کہ ہم ذہنی و فکری سطح پر عبوری دور سے گزرتے ہوئے اپنی شناخت کے خد و خال دریافت کرنے میں مصروف ہیں وہاں چند وجوہ اور بھی ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ تیز رفتار زندگی میں، جس کے ہم ابھی پورے طور پر عادی نہیں ہوئے ہیں اور کچھ بوکھلائے ہوئے سے ہیں، اخبار نے کتاب کی جگہ لے لی ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ادب کی جو تعلیم اسکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک دی جاتی ہے وہ فرسودہ اور بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تعلیم سے طلبا میں ادب کا وہ ذوق اور ادب کا وہ شعور پیدا نہیں ہوتا جواب تک ادب کی تعلیم پیدا کرتی رہی تھی۔ قدیم ادب پڑھایا جائے یا جدید ادب ، اُس کا رشتہ ہمارے اپنے دور سے ہونا ضروری ہے ، ورنہ طالب علم کے لیے کلاسیکی ادب ایک مردہ چیز بن کر رہ جائے گا۔ ملا وجہی کی "سب رس" قدیم ادب کا ایک شاہکار ہے۔ اگر اسے جدید دور کی معنویت کے تعلق سے نہیں دیکھا اور پڑھایا جائے گا تو طالب علم کے لیے اس سے لطف اندوز ہونا مشکل ہو جائے گا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں ادب خواہ قدیم ہو یا جدید، زندگی سے ہماری دلچسپیوں کو گہرا کرتا ہے۔ تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ لکھنے اور پڑھنے والے کا رشتہ کمروز پڑ گیا ہے۔ اس رشتے کی کمزوری میں لکھنے والے کی فکر اور ذہن کی بے ہمتی کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ لکھنے والے کو ہمیشہ یہ علم رہنا چاہیے کہ وہ کیوں لکھ رہا ہے اور کس کے لیے لکھ رہا ہے؟ پرسچت نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی تحریر کوئی نہیں پڑھے گا تو وہ اپنی فطری اپچ کے باعث شاید لکھنا تو بند کرے لیکن وہ بجائے قلم سے کاغذ پر لکھنے کے صرف اپنے ذہن میں لکھے گا۔ اور ظاہر ہے کہ اس عمل میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہو سکتا۔ جب یہ صورت پیدا ہوتی ہے تو تخلیقی توانائی کمزور پڑھاتی ہے اور تحریر میں اثر آفرینی کی وہ قوت پیدا نہیں ہو پاتی جس سے پڑھنے پڑھنے والے کا ذہن لکھنے والے کی گرفت میں آجاتا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ اچھا اور بڑا لکھنے والا پڑھنے والوں کی ایک جماعت خود پیدا کرتا ہے۔ انھیں متاثر کرتا ہے اور ان کے ذہن کو بدلتا ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کے رد عمل سے وہ خود بھی متاثر ہو کر بدلتا رہتا ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ یہ کہیں کہ آخر زندگی میں ادب کی کیا ضرورت ہے۔

یہ سوال بذات خود ادب کے مزاج اور اس کی نوعیت سے بے خبری کا ثبوت ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ آخر میر، غالب اور اقبال یا مولانا روم ، سعدی و حافظ آج بھی ہمیں کیوں متاثر کرتے ہیں، حالانکہ زندگی کے انداز اور فکر و نظر کے سانچے بالکل بدل گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب ابدی سچائیوں کو ، زندگی کے چھوٹے بڑے تجربوں کو ایسے پیرائے سے بیان کرتا ہے کہ یہ سچائیاں خوب صورت لفظوں میں ہمیشہ کے لیے دل میں محفوظ ہو جاتی ہے۔ ادبی اظہار سچائیوں اور تجربات کا جامع اور تہدار اظہار ہوتا ہے جس کے مختلف پہلو زندگی کے بدلنے کے ساتھ ساتھ از خود واضح ہوتے رہتے ہیں۔ اور یہ کتنی بڑی دین ہے کہ ادب کے ذریعے ہم دوسروں کے تجربوں اور سچائیوں میں شریک ہو جاتے ہیں۔ غور کیجئے اگر ادب وہ کام نہ کرتا وہ اب تک کرتا آیا ہے اور اگر مولانا روم ، سعدی، حافظ یا شکسپیر، گوئٹے، ٹالسٹائی، میر، غالب اور اقبال وغیرہ نہ ہوتے اور ان کے تجربے انسان کی فکر اور احساس کا حصہ نہ بنتے تو انسان آج بھی ایک ننھے بھولے بچے کی طرح ہوتا۔

ادب کے ذریعے ہی انسان بلوغت کے درجے پر پہنچا ہے۔ یہ میرا اور آپ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ زندگی بسر کرتے ہوئے ہم بہت سے جذبوں سے گزرتے ہیں۔ بہت سے نامعلوم احساس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے۔ بہت سے اور کچرے تجربات سے ہم گزرتے ہیں لیکن ہم انھیں بیان نہیں کر سکتے۔ محسوس تو کرتے ہیں لیکن پوری طرح نہیں۔ یہ سب جذبے ، یہ سب احساسات، یہ سب تجربے ہمارے لیے بے نام ہوتے ہیں اور یوں ہی گزر جاتے ہیں لیکن جب ان تجربوں اور جذبوں سے ہمارا واسطہ کسی ناول کسی افسانے کسی مضمون کسی شعر کسی ڈرامے سے پڑتا ہے تو ہمارا نامعلوم احساس معلوم ہو جاتا ہے اور ہم اس کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں اور دوسروں کے تجربے اس طرح ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح ہم اپنی زندگی میں نئے معنی، فکر کی نئی وسعتیں اور احساس کی نئی گہرائیاں تلاش کر لیتے ہیں۔ ادب اپنے پڑھنے والے کو یہی دیتا ہے اور جب تک انسان، انسان ہے یہی دیتا رہے گا۔ میں اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کروں گا۔ اپنی محبوبہ کو رقابت یا حسد کی شدت کے زیر اثہ قتل کرنے کا تجربہ حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔ لیکن شیکسپیئر کے اوتھیلو کو پڑھ کر یا اسٹیج پر دیکھ کر یہ تجربہ ہمارا اپنا تجربہ بن جاتا ہے ۔ فاؤسٹ کو پڑھ کر گوئٹے کے تجربے یا اینا کرینا کو پڑھ کر ٹالسٹائی کے تجربے میرے اور آپ کے تجربے بن جاتے ہیں۔ امراؤ جان ادا، ابن الوقت، مرزا ظاہر دار بیگ کے کردار اس طرح ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ یہاں میں آپ کو ایک سوال اٹھانے کی اجازت دیتا ہوں۔ آخر ان تجربات کا شعور یا ادراک حاصل کئے بغیر بھی تو ہم زندگی گزار سکتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ میں آپ کو ایسی زندگی گزارنے سے باز تو نہیں رکھ سکتا لیکن صرف اتنا کہوں گا کہ یہ زندگی وہ زندگی نہیں ہے جو ایک باشعور انسان بسر کرتا ہے یا اسے بسر کرنی چاہیے ۔ یہ بات یاد رہے کہ اگر ہم اپنی زندگی کو ساری زندگی سے کاٹ کر صرف اپنے تجربات تک محدود کر لیں تو ہماری زندگی ایک اندھا کنواں بن کر رہ جائے گی اور عین ممکن ہے کہ ہمارے اپنے تجربات کوئی خطرناک صورت اختیار کر لیں۔ ادب کے ذریعے دوسروں کے تجربات میں شریک ہو کر ایک طرف قاری کا تزکیہ اور کتھارسس ہو جاتا ہے اور دوسری طرف اس کی زندگی میں ایک نیا اعتدال، ایک نیا توازن پیدا ہو جاتا ہے جس سے دور دور تک قطار اندر قطار روشنی نظر آنے لگتی ہے۔ یہی وہ روشنیاں ہیں جو شعور کی علامت ہیں اور جس سے گزر کر فرد اور معاشرہ زندگی کے گہرے سمندروں میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے لگتے ہیں ۔ آئیے ہم سب اس مسئلے پر غور کریں اور ادب، زندگی، تہذیب اور قاری کے اس رشتے کو پھر سے دریافت کریں۔

(۶۱۹۸۴)

ادب اور چٹکلے بازی

آج کل بات سنانے کا واحد طریقہ یہ رہ گیا ہے کہ بات کہنے سے پہلے چٹکلے بازی کیجئے دو چار قصے یا لطیفے سنائیے پڑھنے والوں میں ذرا سی سنسنی پیدا کیجئے اور بات ختم کر دیجئے۔ جہاں آپ نے سنجیدہ بات سنجیدہ طریقہ سے کہی اور پڑھنے والے نے ناک بھؤں چڑھائیں اور کتاب یا رسالہ بند کیا اور کرکٹ کی کومینٹری یا ریڈیو سیلون سے فلمی گانے سننے لگا. پڑھنے والوں کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ایسی چیزیں دیجئے جن سے دماغ پر بوجھ نہ پڑے اور جو صرف تفریح طبع کے لئے لکھی گئی ہوں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سنجیدگی کی جان کے لالے پڑ گئے ہیں اور سطحیت اور جذباتی فارمیشن کا عفریت ہمارے ذہنوں پر حکمرانی کر رہا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ بہت سے سنجیدہ لکھنے والوں نے بھی اس مطالبے کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، اور تو اور اب تنقیدی مضامین کا رجحان بھی یہی ہو گیا ہے کہ صرف لطیفوں، فقروں اور تصوف کی پوٹ معلوم ہوتے ہیں. مضمون کے دوران میں کبھی ایک آدھ سنجیدہ بات آگے بات آگئی تو آگئی ورنہ قصہ در قصہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ مضمون ختم ہو جائے گا اور کہانی کی روایت کے مطابق پیسہ ہضم ہو جائے گا۔ ایسے مضامین کو پڑھنے کے بعد آپ "ذرا سوچئے" واضح رہے ہم نے "ذرا" کا لفظ استعمال کیا ہے کہ لکھنے والے نے کیا کہا ہے اور پڑھنے والے تک کیا پہنچا ہے تو نتیجہ کے طور پر دو چار کمزور فقرے، ایک آدھ بے جان لطیفہ یا قصہ ذہن میں ابھرے گا اور بس۔ نہ ان مضامین سے کسی ذہنی رویے کا پتہ چلتا ہے نہ کسی خیال کا۔ زیادہ سے زیادہ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے سنجیدگی کو منہ چڑایا ہے ۔ یہ بات ہم نے اس لئے لکھی ہے کہ یہ رجحان بذات خود بہت خطرناک ہے اور اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ لکھنے والوں نے بھی اب سنجیدگی کی طرف سے منہ موڑ لیا ہے اور اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ آج کے بہت سے لکھنے والے ادب کو کرکٹ کے معیار سے دیکھ رہے ہیں اور اردو کے بیشتر پڑھنے والے (جس میں آپ کا نام شامل نہیں ہے ، تحریروں کو کومینٹری یا ریڈیو سیلون کے گانے سمجھ کر پڑھتے ہیں ایسے لکھنے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی تحریروں کی اونچی دوکان پر شائقین کا وہ ہجوم ہو کہ تولتے تولتے ان کے ہاتھ دکھ جائیں اور ہر شخص امرتی بالوشائی کی اس قدر تعریف کرے کہ ان کی محنت وصول ہو جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ادھر مضمون لکھا ادھر تعریفوں کے پل بندھ گئے۔ جدھر نکلے ادھر لڑکے لڑکیاں آٹو گراف بک لے کر گئے۔ قصہ مختصر یہ کہ ادیب، کرکٹ اور ریڈیو سیلون کی مقبولیت سے ایسا بو کھلا گیا ہے کہ اس نے اپنی ذات پر سے اعتماد اٹھا دیا ہے۔ اب وہ پڑھنے والوں کو صرف وہ دے رہا ہے جس کے وہ خواہش مند ہیں. وہ نئے خیالات سے خوف زدہ ہے۔ وہ سنجیدگی سے سہما ہوا ہے۔ ابھی کچھ دن ہوئے نیوزی لینڈ کی ایک فلم ایکٹریس کا انٹرویو کسی رسالے میں شائع ہوا تھا۔ یہ فلم ایکٹریس جب دنیا کی سیر کرتے کرتے امریکہ پہنچی اور اخبار والوں نے اسے گھیرا تو اس نے کہا کہ "امریکہ پہنچ کر مجھے جس چیز کا شدید طور پر احساس ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ سارا امریکہ عورت کے خون میں مبتلا ہے امریکہ میں جو تصویریں نظر آتی ہیں ان میں یا تو صرف پنڈلیاں اور رانیں دکھائی گئی ہیں یا پھر صرف سینہ. امریکی قوم پوری عورت کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی"۔ انٹرویو پڑھتے وقت یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ عورت صبح ناشتے میں آدھا سیر کچا گوشت کھاتی ہے ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ عورت اگر سیر کرتے کرتے پاکستان کی طرف بھی نکل آتی تو وہ یہاں کے لوگوں کو دیکھ کر یہی کہتی کہ یہاں کے لوگ خیال کے خوف میں مبتلا ہیں، وہ پورے خیال کو دیکھنے کی تاب نہیں لا سکتے اور یہ لوگ تلے ہوئے گوشت اور زندگی کے حقائق میں فرق نہیں کرتے. ہم نے ہر چیز کا کیپسول بنا لیا ہے اور وقت ضرورت اسے سٹک لیتے ہیں۔ فلسفہ و فکر سے ہمیں اس لئے نفرت ہے کہ اس سے نئے خیالات پیدا ہوتے ہیں جن سے ہم آنکھیں چار نہیں کر سکتے، ہماری ساری زندگی کیپسول میں بند ہو کر رہ گئی ہے کہیں کاہلی کا کیپسول ہے۔ کہیں شہرت اور مادی خوشحالی کا، کہیں صحافت کا کیپسول ہے کہیں کمیٹیوں کا۔ بہر حال ہر قسم کے کیپسول سارے معاشرے میں عام طور پر سستے داموں مل رہے ہیں۔ ادب بھی رفتہ رفتہ کیپسول میں گرتا جا رہا ہے اور شاید وہ دن دور نہیں ہیں جب کمیٹیوں کے کیپسول ادب عالی تخلیق کیا کریں گے اور کمیٹیوں کی لکھی ہوئی چیزیں شہرت عام اور بقائے دوام کا خلعت اوڑھا کریں گی بہر حال ہمیں تو اس سلسلے میں صرف یہ کہنا ہے کہ اپنے آپ سے اعتماد اٹھا دینے کا یہی نتیجہ ہو سکتا تھا۔ اب تک ادب ایک ایسا ذریعہ اظہار تھا جہاں ادیب ایک فرد کی حیثیت سے دوست فرد سے بات کر سکتا تھا۔ اب ادیب بھی بحیثیت فرد کے باقی نہیں رہا۔ وہ بھی کمیٹیوں اور اداروں میں اتر رہا ہے اور ذات کے مطالبات کو ترک کر کے کمیٹیوں کے مطالبے پورے کرنے میں مگن ہے۔ وہ بھی اب چیونٹیوں کی فطرت کو عزیز رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسرا راستہ اختیار کرنے میں صرف گھاٹا ہی کھاتا ہے اور گھاٹے کا سودا کون عقلمند ہے جو کرے گا لیکن آپ برا نہ مانیں تو ہم یہ بات آپکے کان میں کہیں کہ تہذیب کے کارخانے میں ہمیشہ بے وقوفوں کے لئے اہم جگہ ہوتی ہے۔ یہ ویسے کوئی راز کی بات نہیں ہے۔ آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں، بحر مسحور میں یا تو حضرت جبریل نہاتے ہیں یا پھر سچا ادیب. یہ تو ہم نے ایک ایسے رجحان کی بات کی جو اس وقت مقبول ہو کر ادیبوں کی صلاحیتیوں پر تخریب کا چارا پھیر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی احساس ہے کہ اردو زبان و ادب کے سارے بچے ادیب کسی نئے راستے کی تلاش میں نظر آتے ہیں۔ کسی ایسے آسمان کی تلاش میں ہیں جوشدت کے ساتھ زمین سے وابستہ ہو، حقیقی ادیبوں کے ہاں ایک اضطراب ایک بے چینی کی لہر نظر آتی ہے جس میں کچھ کرنے کی جو کا بڑا ہاتھ ہے۔ اکثر ادیب نہایت بے باکی اور دیانتداری کے ساتھ اپنے خیالات و احساسیات کا اظہار کر رہے ہیں جس کی سمجھ میں جو بات آرہی ہے وہ اس کو بلا تأمُل پیش کر رہا ہے کچھ باہر سے قلمیں لگا رہے ہیں کچھ اپنے پرانے علمی خزانوں کی طرف رجوع ہو رہے ہیں، کچھ نہایت خلوص کے ساتھ اپنی تقدیر کو پورا کرنا چاہتے ہیں، کچھ تہذیب کے مسائل کو سجھ کرنئے عناصر اور نئے عوامل کی تلاش میں سرگرداں ہیں، کچھ پرانے موضوعات کو نیا رنگ دے رہے ہیں، کچھ شعر و شاعری، مضامین وغیرہ میں خیال اظہار اور تکنیک کے نئے تجربے کر رہے ہیں کچھ ایسے ہیں جو کائنات کو اپنی ذات میں اتار کر اس کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں، سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ سب ادیبوں میں یہ جذبہ اُبھرتا محسوس ہوتا ہے کہ اپنی مِلّی روایت سے رشتہ منقطع کرنے کے بجائے اب وہ اس میں ایک نئے بامعنی تسلسل کو تلاش کر رہے ہیں تاکہ وہ ان بنیادوں پر کھڑے ہو کر اونچے ہو سکیں. تقلید مغربی نے ہم میں سے قوت انتخاب و فیصلہ کی جو صلاحیت چھین لی تھی اب ادیب اسے ترک کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں اور اس کا سبب شاید یہ ہے کہ صرف مادّی ترقی سے مغرب نے جو کچھ حاصل کیا وہ ذہنی بے سکونی، اور روحانی انتشار کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اور اب ہمیں اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ اگر ہم بھی اپنی روایات سے الگ ہو کر صرف اسی راستے پر چلے تو ہمارا بھی یہی حشر ہوگا۔ بہر حال اس وقت ہمیں ادیب کی حیثیت سے اتنا ضرور کرنا چاہئے کہ ہم جو کچھ سوچیں سنجیدگی سے سوچیں اور جوکچھ کہیں ایمان داری اور سنجیدگی سے کہیں۔ وہ لوگ جو مصلحت کا لبادہ اوڑھے ہوتے ہیں یا جو مصلحتوں کے پیش نظر ادب کو استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فن ادب کو مصلحتوں کا غلام بنانا چاہتے ہیں وہ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہم ساری قوم کے شعور سے اس آگاہی، اور ادراک اور حقیقت کو مٹا رہے ہیں جس کے سائے میں قومیں آگے بڑھتی ہیں ہمیں خوشی ہے کہ ہماری نسل کے لوگ اب ذہنی طور پر زیادہ بیدار ہو گئے ہیں جو نہ صرف اپنا فرض پہچان رہے ہیں بلکہ اسی تلاش و جستجو میں لگے ہوئے ہیں ۔ اسی رویے میں ہماری قوم اور ہمارے زبان و ادب کی سلامتی ہے۔

زنده آن است که با دوست و صالی دارد

(۶۶۹۶۱)

ادب ، سائنس اور نئی نسل

کچھ دن سے یہ سوال بار بار ہمارے سامنے آرہا ہے کہ اس دور میں جب سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ قدم قدم پر ہمارا ساتھ دے رہی ہے، ہمارے مسلم نظریات ایک ایک کر کے ٹوٹ رہے ہیں، زمان و مکان کے تصورات میں تبدیلیاں ہو رہی ہیں، تو ایسے میں ادب کا کیا کردار ہو گا ؟ کیا مستقبل میں ادب کی اہمیت ختم ہو کر رہ جائے گی ۔ کیا سائنس ادب کی جگہ لے کر اسے معاشرے کی زندگی اور مزاج سے نکال باہر کرے گی کیا ادب اس تیزی کے ساتھ بڑھتی اور پھیلتی ہوئی زندگی کا ساتھ دے سکے گا جسے سائنس کہیں سے کہیں پہنچار ہنچا رہی ہے؟ اور اب جب کہ سائنس نے نئے نئے مسائل کھڑے کر دیے ہیں، حالات، سیاسیات، واقعات تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں، جن کی مثال ماضی میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون نے قربت کا احساس اور زیادہ کر دیا ہے۔ دنیا کے دور دراز کے گوشوں میں ہونے والا واقعہ ساری دنیا کے نظام اور زاویۂ فکر کو متاثر کر سکتا ہے۔ انگلستان میں ہونے والا معاشی بحران ساری دنیا میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ماسکو ریڈیو کی ایک خبر سارے ملکوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے تو ایسے میں ادب کی حیثیت و اہمیت کیا رہ جاتی ہے ؟ اس سلسلہ میں کچھ لوگوں کا خیال تو یہ ہے کہ ادب مستقبل قریب میں بلی کا گھر بن کر رہ جائے گا۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہار مان لی جائے کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ فی الحال مناسب یہی ہے کہ چپ سادھ لی جائے اور جب یہ طوفان ذرا ہلکا پڑ جائے ، چڑھتی آندھی اتر جائے اُس وقت اس موضوع پر غور کیا جائے۔ ان دونوں باتوں میں دراصل وہی احساس کمتری کام کر رہا ہے جو سائنس کے تعلق سے ادب والوں کے دل و دماغ پر مسلط ہو گیا ہے۔ اب ایسے میں اگر یہ دیکھ لیا جائے کہ سائنس کا حلقہ اثر کیا ہے ، ادب کا راستہ کون سا ہے اور وہ کون سی باتیں ہیں جو اس سلسلے میں ادب سے وابستہ ہو گئی ہیں اور جنہیں ہم ادب میں نہ پا کر مایوس ہونے لگتے ہیں تو ساری الجھنیں دور ہو جائیں اور مسئلے کی اصلیت ہمارے سامنے آجائے ۔

سائنس کے فیض سے دو باتیں خاص طور پر رواج میں آئیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ کائنات میں کوئی حقیقت دائمی نہیں ہے، ہر صداقت عارضی ہے۔ اس بات کا اثر یہ ہوا کہ ہم اپنی فکر کی مجبوریوں سے آگاہ ہو گئے اور عام زندگی میں اس کا یہ اثر پڑا کہ بے یقینی اور مشترک عقیدہ کا فقدان ، ہمارا ایمان بن گیا۔ دوسری بات مادّیت پرستی کے رجحان کی شکل میں ظاہر ہوتی۔ اس کا اثر یہ پڑا کہ ادب والے بھی اسی رو میں بہہ گئے اور ادب میں براہ راست افادیت تلاش کرنے لگے جب افادیت تلاش کرنے کی بات پیدا ہوئی تو ظاہر ہے مقابلے میں سائنس تھی ۔ ادب بے چارہ نہ تو کمروں کو گرم کر سکتا تھا نہ ہمیں لندن، نیویارک، ماسکو پہنچا سکتا تھا۔ نہ ہمارے کانوں کو اتنا لمبا کر سکتا تھا کہ ہم طویل فاصلوں سے باتیں کر سکیں۔ اور جب ہم نے ادب و شعر کو بھی اسی پیمانے سے ناپنا شروع کر دیا اور اس سے بھی وہ لا محدود توقعات وابستہ کر لیں اور ہر اس چیز کو ادب سے چسپاں کردیا جس میں ذرا سے بھی عظمت کے نشان نظر آئے تو ہم ادب کے مستقبل کے سلسلے میں مایوس ہونے لگے اور یہیں اپنا احساس کمتری ادب میں بھی نظر آنے لگا یہی وہ بنیادی غلطی تھی جو ہم سے سرزد ہوئی۔ ادب تو انسان کی ان خواہشات کا اظہار ہے جنہیں وہ حاصل کرنا چاہتا ہے مگر حاصل نہیں کر سکا ہے ۔ اب ذرا اس معیار پر طلسم ہوشربا، باغ و بہار، انوار سہیلی اور الف لیلی کو دیکھتے ہیں۔ ان خیالی داستانوں اور قصوں میں انسانی تجربات کا مطالعہ ملتا ہے۔ ان قصے کہانیوں میں وہ تعمیم ملتی ہے جس کی بنیاد ہماری خواہشات پر ہے۔ ان داستانوں میں انسانی ذہن نے اپنے تخیل کو وہاں تک اٹھنے دیا جہاں تک اس کی رسائی ممکن تھی محیر العقول واقعات، ناممکن العمل باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں ساحر اپنی جھولی میں ہاتھ ڈالتا ہے اور ایک گولا نکال کر ہوا میں اچھالتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے آگ اور خون کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور دشمن کی فوج ذرا دیر میں نیست و نابود ہو کر رہ جاتی ہے یا ذرا سی دیر میں بنجر صحرا موجیں مارتے ہوئے دریائے بے کراں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ذرا دیر میں زمان و مکان مل جاتے ہیں، فاصلے مٹ جاتے ہیں اور عمرو اور دوسرے عیار نظر بچا کر اس جگہ جا پہنچتے ہیں جہاں تخیل کی رسائی بھی مشکل سے ہو سکتی ہے۔ عمر و عیار اور ان کی زنبیل، جادو، سحر اور طلسم، محیر العقول واقعات، تخت سلیمان ، اڑن کھٹولا، در اصل انسانی خواہشات کی وہ علامتیں ہیں جن سے نہ صرف وہ مسرت حاصل کرتا ہے بلکہ حیات و کائنات کو اپنے تصرف میں لانے کی آرزو کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اب اس نقطہ نظر سے ان فن پاروں کو دیکھتے تو ان کی دنیا کے نرالے پن اور انسانی خواہشات کے بھرپور ہونے کا شدید احساس ہونے لگتا ہے. مفروضہ، عمومیت کا رنگ لے کر ادیب کے ذہن میں ابھرتا ہے اور برسوں پہلے وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں سائنس قدم قدم پہنچتی ہے۔ اصل میں ادب کے سلسلے میں یہ ساری مایوسی اور بوکھلاہٹ ادب کی ماہیت اور نوعیت نہ سمجھنے کی بناء پر ہے۔ جیسا کہ ایلیٹ نے کہا ہے ادب کا معاملہ تو براہ راست زبان سے ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ اسے محفوظ رکھے اور دوسرے یہ کہ اسے وسعت اور ترقی دے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ اس سلسلے میں دوسروں کے احساسات کی ترجمانی بھی کرتا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اسے بدلتا بھی جاتا ہے اور ہمیں ان احساسات سے زیادہ باخبر بھی کر دیتا ہے جو اب تک دھندلے دھندلے ہمارے شعور کے اندھیروں میں جلن مجھ رہے تھے اور میں ان احساسات کا تجربہ بھی کرا سکتا ہے جن کو ہم نے اس سے پہلے محسوس تک نہ کیا تھا۔ ادب ادراک و احساس کے نئے نئے انحراف کی تلاش کرتا ہے جنہیں دوسرے اپنے تصرف میں لا سکتے ہیں اور اسی باخبری اور گاہی کے ساتھ وہ زبان کو وسعت دے کر اس کے مزاج میں نئے پن اور زندگی کے نت نئے تجربوں اور تنوع کا رنگ بھرتا رہتا ہے۔ ادب ہمیں تجربوں کے مفہوم اور پیچیدگی سے باخبر کرتا رہتا ہے۔ اس کا اثر ہمارے اعمال پر بھی پڑ سکتا ہے. ویسے ادب کا یہ کارنامہ کوئی ایسا نیا نہیں ہے۔ جدید ذہن نے سائنس کی ترقی سے مات کھا کر، صرف اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ ادب کے سلسلے میں عمل کے عنصر کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دیا ہے اور اس میں براہ راست وہ عناصر تلاش کرنے لگا ہے جس کا غریب ادب سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ ادیب کا کام یہ تو ہر گز نہیں ہے کہ وہ پبلک (لوگوں) کی حوصلہ افزائی کرے، کسی مقصد کو آگے بڑھانے میں ادب کی چادر لپیٹ کر پیش پیش رہے یہ سارا جال دراصل سائنس کی افادیت پسندی کا بچھایا ہوا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ فن کا اثر ہمارے عمل پر پڑتا ہے اور وہ اس لئے کہ وہ ہمارے جذبات کو اپنی گرفت میں لے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ کام بھی ثانوی درجہ رکھتا ہے۔ ادیب کا پہلا کام تو یہی ہے کہ وہ اپنے اس معاشرے کے ادراک و خیال، عقیدے اور تجربے کی مجموعی پیچیدگی سے آگاہی ہے جس سے شعر و ادب پیدا ہوتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو زبان میں ابتدائی صداقت کا فقدان ہو جائے گا اور اشیار اور الفاظ کا باہمی رشتہ منقطع ہو جائے گا۔ اور جب زبان سے یہ چیزیں غائب ہونے لگتی ہیں تو انسانی کیفیات پر سے بھی اس کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگتی ہے عمل کے امکانات کی بڑھ لگانے سے پہلے ضروری ہے کہ انسانی حالت و کیفیت کے عنصر کو درجہ بدرجہ زبان میں شامل کیا جائے. ویسے تو یہ بات سائنس کی افادیت کے مقابلے میں بالکل بے مایہ سی معلوم ہوتی ہے لیکن اس میں ایک راز اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کسی زبان میں بڑے فنکار پیدا ہونے بند ہو جائیں تو اس سے ایک طرف تو یہ ہوگا کہ ہمارے تخیل کا سوت بند ہونے لگے گا اور دوسری طرف زبان کے زوال پذیر ہونے کے ساتھ پوری تہذیب کا شیرازہ بکھرنے لگے گا اور پھر رفتہ رفتہ یہ تہذیب کسی قوی تر تہذیب میں جذب ہو کر ختم ہو جائے گی۔ بالکل یہی عمل اس وقت ہماری تہذیب کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ابھی یہ عمل دبے دبے قدموں ہو رہا ہے لیکن جب اس عمل کی جڑ میں زمین پر لیں گی تو اس وقت ہم اس کا شدید طور پر حساس کرسکیں گئے تہذیب کے کسی قوی تر تہذیب میں جذب ہونے کے بعد ساری ترقیوں کے امکانات محدود ہونے لگتے ہیں اور سائنس کی ترقی بھی اسی کے ساتھ رک جاتی ہے۔ تاریخ کے اوراق ایسی مثالوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ایلیٹ نے اس سلسلے میں بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ اگر ہمارے ہاں ادب کی تخلیق بند ہو جاتے تو اس سے نہ صرف یہ کہ ہم احساس کے تنوع سے بے خبر ہو جاتے ہیں ہمارے سوچنے کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں بلکہ ہم ماضی کے ادب سے بھی الگ ہو کر رہ جاتے ہیں جو اس پر اس لئے کہ ادب میں سارا معاملہ تسلسل کا ہے اور تا وقتیکہ ہم اس تسلسل کو برقرار نہ رکھ سکیں ہمارا ماضی ہم سے دور تر ہوتا چلا جائے گا، اور یہاں تک کہ وہ خود ہمارے لئے اتنا ہی اجنبی ہو جائے گا جتنا کسی بدیسی زبان یا قوم کا ادب وقت کے ساتھ ساتھ طرز زندگی اور زبان بدلتی رہتی ہے اور تا وقتیکہ ہمارے پاس چند آدمی ایسے نہ ہوں جو غیر معمولی ادراک و احساس کو لفظوں میں جوڑنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہوں تو پھر رفتہ رفتہ نہ صرف ہمارے اظہار بلکہ محسوس کرنے کی صلاحیت بھی زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ ادب کا معاملہ ایسا ہے کہ وہ پوری قوم کے بولنے کی قوت اور ادراک کو متاثر کرتا ہے۔ بہر حال ادراک و احساس کا جہاں تک تعلق ہے وہ ادب ہی میں نمودار ہوتا ہے۔ ادب انسان کی داخلی کائنات کا اظہار ہے جس پر خارجی عوامل کی پوری چھوٹ پڑتی رہتی ہے اور اس میں خارجی عوامل اس طور پر ملے جلے ہوتے ہیں کہ آپ اس دھوپ چھاؤں میں کہیں بھی انگلی رکھ کر یہ نہیں کہ سکتے کہ فلاں چیز یہاں ہے۔ اس میں احساسات کے نئے جلوے زندگی کے نئے زاویے دیتے، کائنات کو سمجھنے کے نئے طریقے، نا معلوم حقیقتوں کے اظہار کے نئے قرینے، ادراک کی غیر محسوس کیفتیں، دلوں کے دبے دبے غم، آرزوئیں حسرتیں اور خواہشیں اظہار پاتی ہیں۔

سائنس کی طرح ادب میں بھی اہمیت اضافی صداقت کی نہیں ہوتی بلکہ اس مسرت کی ہوتی ہے جو اس کے ذریعے ہمیں حاصل ہوتی ہے۔ ادب کے سلسلے میں ایک بنیادی بات یہ بھی ہے کہ وہ مسرت بہم پہنچانے کا ایک ذریعہ ہے۔ سائنس نہ تو ادب کی دشمن ہے اور نہ ادب کو اس سے کوئی خدا واسطے کا بیر ہے۔ جب ادیب کسی موضوع یا مسئلے پر غور کرے گا تو ظاہر ہے کہ اس کا شعور و احساس الگ الگ نہیں رہ سکتے تو اس پر سائنٹیفک رنگ ڈھنگ اور تصویر کا اثر ضرور پڑے گا کیونکہ یہ فضا بھی ہماری اسی تہذیبی فضا کا ایک حصہ ہے جس میں ہم سائنس لے رہے ہیں فن کار کی حیثیت سے جب کبھی وہ سوچے گا، اپنی صورت حال کی نوعیت اور زندگی کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے گا تو اسے، جدید احساسات کے اظہار کے لئے سائنس کا سہارا لینا ہوگا۔ اور اس سہارے سے اس سے اس کے اظہار کے ذرائع ، ساخت اور مزاج پر اثر پڑنا ضروری ہے، مثال کے طور پر ہم ان اثرات کو رلکے کے نوحوں، ایلیٹ کی شاعری میں جولیس، کافکا اور پردست کے ناولوں میں دیکھ سکتے ہیں، ریڈیو اور فلم وغیرہ نے ہمارے انداز پر کس طرح سے اثر ڈالا ہے یہ بھی کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے. تخلیقی روح تاریکی میں تو ٹامک ٹوئیاں مارنے سے رہی۔ کوئی بھی ادیب جب تک اپنے جذبات کو معروضی رنگ میں نہیں دیکھ لے گا وہ فنکارانہ طور پر اس کا استعمال نہیں کر سکتا۔ زندگی کا ذاتی پیٹرن بھی اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب فن کار اپنے ماحول سے پورے طور پر باخبر ہوں اس کا شعور رکھے اور یہ پیٹرن اس لئے زیادہ مکمل بھی ہوگا کہ اس میں انسان کی ذات اور احساس راہ پاتے ہیں، سائنس کی ترقی اور کی ترقی اور اس کے نو بہ نو انکشافات میں نہ جذبات ہوتے ہیں، نہ احساس اور نہ جمالیاتی پہلو۔ ادب ان میں یہ رنگ بھر دیتا ہے۔ ان میں اپنی انفرادیت و معنویت رسا بسا کر نئی زندگی بخشتا ہے جو رفتہ رفتہ ہمارے عام شعور کا ایک حصہ بن جاتی ہیں اور پھر ہم سائنس کے انکشافات اور اثرات کو زندگی کی دھڑکنوں ، احساس کی قوتوں، اور اک در جذبات کی توانائیوں ، خواہشوں اور ارمانوں کے رنگ میں دیکھنے لگتے ہیں۔ سائنس فن کار کے دماغ میں وہی گل کھلا سکتی ہے، وہی ہلچل مچا سکتی ہے جو عمل قاری کے ذہن پر فن کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسوں میں بھی جید لوچی اور حیاتیات نے ادب پر زیادہ اثر ڈالا ہے اور جنہیں ٹی۔ اسی میوم علی جلی سائنس کا نام دیتا ہے۔ فن کار اسی حد تک سائنس کا دشمن ہو سکتا ہے کہ وہ دنیا کے بارے میں معروضی رویہ اختیار نہیں کر سکتا اور کسی ایسے فارمولے کو قبول نہیں کر سکتا جس کی زندگی اس تجربے کے صحیح ہونے تک محدود ہوتی ہے۔ سائنس کی معروضیت اور فطرت کی ذہنی معرفت کے لئے حساس فرد کی داخلیت اور جبلی ادراک میں جذب ہونا ضروری ہے۔ اس لئے کہ سب سے بڑی صداقت یا حقیقت انسان کی ذات ہے۔ سائنس کے انکشافات ، زمان و مکان کے نئے تصورات، دنیا کے حالات کوائف کی خبریں انسان کو اپنی ذات کے عرفان میں مدد دے سکتی ہیں اور اس سے ذات کے نئے نئے پہلو نئی وسعتیں اور فضا میں سامنے آسکتی ہیں۔ نئے انسانی رشتے جسمانی و روحانی تعلقات پیدا ہو سکتے ہیں اور جس سے نیا اور اک نیا احساس و جذبہ وجود میں آسکتا ہے اور جس کا اثر نہ صرف مزاجوں پر پڑ سکتا ہے بلکہ فکر و اظہار پر بھی۔ ذات کا یہی عرفان ممکن ہے اس بے عقیدگی کے دور میں کسی نئے عقیدے کا پیش خیمہ ثابت ہو، مذہب کا لفظ میں یہاں جان بوجھ کر استعمال نہیں کر رہا ہوں، جس میں جمالیات و اخلاقیات مل جل کر ایک ہو جائیں، جس میں اساطیر ہوں، فنکار ہوں اور جس کا ایک خدا بھی ہو. سائنس کے اس دور میں ادب کو وسعت کے بجائے مرکز کی تلاش ہے اور یہ مرکز نئی نسل کے لئے ذات کا عرفان ہی ہو سکتا ہے۔ رہا ابلاغ کا مسئلہ تو وہ شعور کے بجائے رمز و کنایہ اور اساطیر سے پورا ہو سکتا ہے۔ اساطیر کے متعلق اب تک ہمیں یہ غلط فہمی رہی ہے کہ یہ زندگی کی سخت کوشیوں، تلخ حقائق سے انحراف کے طور پر تفریح طبع پانے کا ایک راستہ ہے۔ یہاں رچرڈنز کا حوالہ دینا بے محل نہیں ہو گا جس کا یہ کہنا ہے کہ اساطیر تو بذات خود ٹھیٹ حقائق کی قلب ماہیت ہیں۔ وہ تو ان کی معروضی امعرفت اور ان کو تسلیم کرنے کا ایک ذریعہ ہیں. اگر انسان کے پاس اپنی اساطیر نہ ہوں تو وہ ایک درندہ بن کر رہ جاتا ہے جس کے پاس نہ روح ہوتی ہے، نہ کوئی مقصد اور نہ کوئی ترتیب یا نظام بلکہ وہ امکانات کا ایک ڈھیر بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ادب کوئی مصدقہ سائنس کی دنیا نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ مکمل ہے. یہ نظام تخیل کے عظیم کارناموں کے ذریعے وجود میں آتا ہے، اس بات کو یوں دیکھیے کہ ایک بھی شخص ایسا نہیں ہے، جو سائنس کے کسی بھی تجربہ کو اپنے اندر محسوس کرسکے حالانکہ وہ مکمل ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن برخلاف اس کے حافظ کی شاعری، فردوسی کا شاہنامہ ، میر کے تیکھے اشعار، اقبال کی مسجد قرطبہ، یا ہیملٹ کی جامعیت کوئی تجرباتی نوعیت کی نہیں ہے بلکہ اس کا نظام فنکار کے داخلی تجربے، احساس اور جذبے کی شدت اور اظہار کی قوتِ گرفت کی وجہ سے ہے جسے ہم اساطیر کا نام دے سکتے ہیں۔ اس وقت یہ جو کچھ بے ترتیبی اور انتشار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اب ہم نہ شدت کے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں اور نہ شدت کے ساتھ سوچ سکتے ہیں. احساس کمتری کے مردے کو اپنے سینوں سے چمٹا کے پھرتے ہیں۔ تہذیبی صحت یا بیماری کو نظر انداز کر دیا ہے اور ذات کی اتھاہ گہرائیوں اور امکانات کو بھلا بیٹھے ہیں ، جو دراصل تخلیق کے سلسلے میں مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں جو ادب کی تخلیق رک سی گئی ہے، یہ ایسی بات نہیں ہے جسے آسانی کے ساتھ نظر انداز کر دیا جائے اور صرف رونے دھونے سے غم ہلکے کر لئے جائیں بلکہ یہ ایک ایسی وبا کی ابتدا ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے ساری تہذیب، قوم اور معاشرہ کو اپنے دامن میں سمیٹ لے گی۔ ایلیٹ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگر مجھے یہ بتایا جائے کہ نارویجین زبان میں شاعری کی تخلیق رک گئی ہے (حالانکہ میں نارویجین شاعری کا براہ راست مطالعہ نہیں کر سکتا ، تو مجھے فیاضانہ ہمدردی سے زیادہ اس خطرہ کا احساس ہو گا جو وبا کی شکل میں سارے یورپ کو اپنے دامن میں سمیٹ لے گا۔ یہ لوگوں کے قوتِ اظہار اور احساس کو روک دے گا۔ اس لئے کہ جب تہذیب صحت مند ہوتی ہے تو اس کے بڑے شاعروں کے پاس اپنے ہم وطنوں کے لئے تعلیم اور کلچر کی ہر سطح پر کہنے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے، اس معیار پر اس وقت اگر ہم اپنی تہذیب، شاعری اور ادب کا اندازہ کریں تو نہیں نئی نسل کی بوکھلاہٹ ، اضمحلال اور مایوسی کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے، حالانکہ صرف بوکھلاہٹ سے تو کام چلتا نہیں ہے۔ ضرورت یہی ہے کہ تہذیب کی اقدار کی تشکیل نو کی جائے۔ ان کی ٹوہ لگائی جائے اور یہ کام صرف ادب کے ذریعے ہو سکتا ہے. کوئی دور زوال پذیر نہیں ہوتا بلکہ صرف افراد ہوتے ہیں۔ تجربے کے مدوجز کا سلسلہ جاری رہنا چاہئیے اس لئے کہ ادب کی رہے بڑی دشمن بے زاری اور اکتاہٹ ہے۔ گزشتہ دس سال میں جو کچھ ہوا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ سفر کرنے کی خاطر سفر کرنے والے، حقیقی مسافروں کا کال پڑ گیا ہے معیار اور علمیت ہماری تنقیدی تحریروں سے مفقود ہو گئے ہیں ۔ ہم اپنے ماضی سے رفتہ رفتہ الگ ہوتے جا رہے ہیں، ذات پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ زبان کو وسعت اور ترقی دینے کی طرف سے ہم بے توجہ ہو گئے ہیں اور اس طرح احساس کی صلاحیت کو ہم گنوار ہے ہیں۔ ہم جو کچھ لکھ رہے ہیں اس سے پورے طور پر با خبر نہیں ہیں کیسی بات پر جھگڑا کرنے، اختلاف کرنے ، بحث و مباحثہ کرنے کی اہلیت کھو رہے ہیں اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم شدت کے ساتھ اپنے عقیدہ کی تعمیر نہیں کرتے، ایسے عقیدے کی جس پر ہمارا پورا ایمان ہو جس پر ہم نے کچھ سوچا ہو، جس سے اگر دوسرے اختلاف کریں تو ہم اپنے عقیدے کے جواز میں دلائل دے سکیں ۔ فرانس انیسویں اور بیسویں صدی میں ادبی تحریکات کا مرکز رہا ہے۔ وہاں کے ادیب جو کچھ لکھتے ہیں باخبر ہو کر لکھتے ہیں، وہ پہلے سے تنقیدی فامولا بنا لیتے ہیں اور وہ ادیب جو ان پر ایمان رکھتے ہیں شعوری طور پر اپنی تخلیقات کی بنیاد انہی فارمولوں کو بناتے ہیں اور یہ فارمولے بنیاد ہونے کے باوجود ان کے تخلیقی TATION پر پابندی عائد نہیں کرتے۔ اس میں ادیب آزاد رہتا ہے اسی لئے اتنے بہت سارے مینی فیسٹو، ادبی تحریکیں اور بحث و مباحثے ان کے ہاں نظر آتے ہیں اور ان کے ہاں تخلیقی کام جاری رہتا ہے ہمیں بھی اب کسی ایسے ہی تنقیدی نظریے کی ضرورت ہے، ایک تحریک کی ضرورت ہے ، ایک فارمولے اور عقیدے کی ضرورت ہے جس میں روح عصر بھی ہو اور آنے والے زمانوں کا شعور بھی۔

ممکن ہے جو کچھ میں نے کہا ہے اسے آپ پسند نہ کریں لیکن اب معاملہ صرف ذاتی پسند و نا پسند کا نہیں ہے بلکہ اچھا برا صحیح غلط اس سلسلے میں جو کچھ بھی ہم سوچیں اسے تحریری شکل میں سامنے لائیں تا کہ بات آگے چلے نئی نسل نے ، اختلاف اور حجت کو بھلا دیا ہے جس سے بات میں سے بات نکلتی ہے اور دھندلکوں میں روشنی کی کرن نظر آنے لگتی ہے اور کہر آلود فضا میں لڑنے جھگڑنے اور چیخنے چلائے سے شکلیں بھی نظر آنے لگتی ہے نے لگتی ہیں فرانس پر جب نازیوں کا تسلط ہوا تو ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ ادیبوں کی زبانوں پر تالے پڑ گئے۔ ایک شخص در ولار دو شیل نامی نازیوں کی طرف سے تبصرہ کرتا تھا اور اس میں ان ادیبوں کی تذلیل کرتا تھا جو زبان بندی کے اسیر تھے، جو سُن تو سکتے تھے مگر جواب نہ دے سکتے تھے کچھ دن تک تو یہ سلسلہ جاری رہا لیکن جلد ہی اس کی تحریروں میں بے چینی اور بے اطمینانی جھلکنے لگی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا لکھنا بند ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کا خطاب ان لوگوں سے تھا جو پلٹ کر جواب نہیں دے سکتے تھے جو اس سے اختلاف نہیں کر سکتے تھے۔ آپ صحرا میں بیٹھ کر بھلا کیا لکھ سکتے ہیں اور کیا بول سکتے ہیں یہی رویہ آج کل نئی نسل کا ہو گیا ہے جب لکھنے والے کو یہ احساس ہونے لگے کہ کسی نے اس کی بات سے اختلاف نہیں کیا ہے۔ اس کی بات کو شاید سنا نہیں ہے تو آخر وہ کب تک لکھے گا؟ اگر نئی نسل نے ایسے ہی چُپ سادھے رکھی تو پھر اُس کا خدا ہی حافظ ہے۔

١٩٥٨

*یہ مضامین بالخصوص طلبہ اور محققین کی سہولت و اعانت کی خاطر نوادرات پر شائع کیے جا رہے ہیں. 

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR