کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا

کیا کہوں دل مائل زلف دوتا کیونکر ہوا

یہ بھلا چنگا گرفتار بلا کیونکر ہوا

جن کو محراب عبادت ہو خم ابروئے یار

ان کا کعبے میں کہو سجدہ ادا کیونکر ہوا

دیدۂ حیراں ہمارا تھا تمہارے زیر پا

ہم کو حیرت ہے کہ پیدا نقش پا کیونکر ہوا

نامہ بر خط دے کے اس نو خط کو تو نے کیا کہا

کیا خطا تجھ سے ہوئی اور وہ خفا کیونکر ہوا

خاکساری کیا عجب کھووے اگر دل کا غبار

خاک سے دیکھو کہ آئینہ صفا کیونکر ہوا

جن کو یکتائی کا دعویٰ تھا وہ مثل آئینہ

ان کو حیرت ہے کہ پیدا دوسرا کیونکر ہوا

تیرے دانتوں کے تصور سے نہ تھا گر آب دار

جو بہا آنسو وہ در بے بہا کیونکر ہوا

جو نہ ہونا تھا ہوا ہم پر تمہارے عشق میں

تم نے اتنا بھی نہ پوچھا کیا ہوا کیونکر ہوا

وہ تو ہے نا آشنا مشہور عالم میں ظفرؔ

پر خدا جانے وہ تجھ سے آشنا کیونکر ہوا
بہادر شاہ ظفر
بہادر شاہ ظفر

1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے وقت بہادر شاہ ظفر 82 سال کے تھے جب ان کے چار بچوں کا سر قلم کرکے ان کے سامنے انگریز تھال میں سجا کر ان کے سامنے تحفے کی شکل میں لائے تھے۔ میجر ہڈسن نے ان کے چاروں لڑکوں مرزا غلام، مرزا خضر سلطان، مرزا ابوبکر اور مرزا عبد اللہ کوبھی قید کر لیا، میجر ہڈسن نے چاروں صاحبزادوں کا سر کاٹا اور ان کا گرم خون چلو سے پی کر ہندوستان کو آزاد کرنے کی چاہ رکھنے والوں سے انگریزوں نے جنگ اوربغاوت کوجاری رکھنے کا خطرناک وحشیانہ عہد کو جاری رکھا۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو اپنے ہاتھوں میں لے کردرد بھرے الفاظ میں ان کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا تیمور کی اولاد ایسے ہی سرخرو ہو کر باپ کے سامنے اپنا فرض ادا کرتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادوں کے دھڑ کوتوالی کے سامنے اور کٹے ہوئے سروں کو خونی دروازے پر لٹکا دیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کی داستان کے لیے 1857ء کی پہلی ہندوستانی جنگ کی اگوائی کی، انگریز سیناپتی نے انہیں دھوکے سے قتل کرنے کے لیے بلوایا اور گرفتار کرکے رنگون بھیج دیا۔ بہادرشاہ ظفر مغل خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔1837ء میں تخت پوشی کے وقت انہیں ابوالمظفر کے بدلے ابوظفر، محمد سراج الدین، بہادر شاہ غازی نام ملا تھا۔ ان کی حکومت ڈھنگ عالم سے پالم تک ہی مانا جاتا تھا۔ وہ نام ماگ کے دہلی کے چیرمین تھے اور اصل حکومت انگریزوں کے پاس تھی۔ انہوں نے اردو، عربی، فارسی، زبان کے ساتھ گھڑسواری، تلوار بازی، تیراندازی اور بندوق چلانے کی کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ وہ ایک اچھے صوفی درشن کے جانکار فارسی میان، سولے خن میں ادیب وشاعر تھے۔ وہ 1857ء تک حکومت کے کام کاج سنبھالتے رہے۔ انگریزوں نے ان پر حکومتی مجرم اور فوجیوں قتل کے الزام میں عدالت کے ذریعہ مقدمہ چلایا، مقدمے میں پیش کیے گئے ثبو ت بہت زیادہ ظلم آمیز تھے اور قانون عام ہونے کے باوجود انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو مجرم اور خاطی قرار دیا اور ملک سے نکالنے کا جرمانہ دیا۔ بے چارگی، ملک دوست، دین دار، بزرگ 82 سال ہندوستان دھرتی ماں کے لاڈلے بہادر شاہ ظفر پر حیرت انگیز مقدمہ سونپا۔ اکتوبر 1858ء میں انہیں زندگی بھر کے لیے رنگون بھیج دیا گیا اس طرح دیش ایک محب وطن نے ملک سے دور رہ کر بھی ملک کی آزادی کے لیے خود کو قربان کرتے ہوئے اپنے قلم سے آزادی کی لڑائی کوجاری رکھا۔ اس دو ران انہوں نے جو غزلیں لکھیں وہ اپنی مہارت اورترقی کے لیے ہندو ستان کی آزادی کے کے متوالوں کے دلوں میں کشادہ جگہ رکھتی ہیں۔ رنگون میں6 نومبر، 1862ء کو اس آخری مغل خاندان 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے رہبر نے اپنی جان نچھاور کردی۔

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR