نصیب وصل تمہارا کہو تو کیوں کر ہو
نصیب
وصل
تمہارا
کہو
تو
کیوں
کر
ہو
فراق
یار
میں
تسکین
ہو
تو
کیوں
کر
ہو
تو
اپنے
وعدے
کا
سچا
جو
ہو
تو
کیوں
کر
ہو
یہ
تجھ
سے
جھوٹ
کی
ہو
ترک
خو
تو
کیوں
کر
ہو
نہ
جل
کے
خاک
ہو
جب
تک
کہ
مثل
پروانہ
ہو
طیش
دل
کا
ہمارے
فرو
تو
کیوں
کر
ہو
ترے
مریض
کے
گر
سو
علاج
ہوں
لیکن
شفا
نہ
اس
کے
نصیبوں
میں
ہو
تو
کیوں
کر
ہو
کسی
پہ
راز
نہاں
دل
کا
تیرے
اے
آنکھو
جو
تم
نہ
گریہ
سے
افشا
کرو
تو
کیوں
کر
ہو
یہ
ہم
بھی
چاہتے
ہیں
ترک
عشق
ہو
لیکن
جو
دل
پہ
بس
نہ
ہو
اے
ناصحو
تو
کیوں
کر
ہو
ملیں
نہ
خاک
میں
جب
تک
تمھارے
کشتۂ
ناز
دمیدہ
خاک
سے
ہو
ناز
بو
تو
کیوں
کر
ہو
جگر
پہ
زخم
تو
کھائے
مگر
مزا
حاصل
نمک
فشاں
ہو
نہ
وہ
جنگ
جو
تو
کیوں
کر
ہو
کرم
کہاں
کے
ستم
بھی
ہو
کرتے
ناز
سے
تم
جو
یہ
بھی
ہو
تو
غنیمت
ہے
وہ
تو
کیوں
کر
ہو
ظفرؔ
جو
ہو
نہ
محبت
میں
دل
سے
دل
کو
راہ
وہ
میرے
حال
سے
آگاہ
ہو
تو
کیوں
کر
ہو