گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح

دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے

جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح

ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک

اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح

وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے

تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار

میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن

شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے

تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک

گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح

ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی

تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
پروین شاکر
پروین شاکر

نومبر، 1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی. شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔26 دسمبر 1994ء کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ لواحقین میں ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔تفصیلات کے مطابق پروین شاکر صبح اپنے گھر سے اپنے دفتر جارہی تھیں کہ ان کی کار ایک ٹریفک سگنل پر موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہوئیں، انہیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئیں اور اسلام آباد ہی کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہوئیں ۔ ان کے لوح مزار پر انہی کے یہ اشعار کندہ ہیں یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے زخم ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے شہر سخن سے روح کو وہ آشنائی دے آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستا سجھائی دے

More poems from same author

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR